کُھلی زپ urdu sexy story

urdu sexy story part 1 افغانستان سے تعلق رکھنے والی یاسمین ہم سے ایک بلاک دور رہتی تھی ۔ یاسمین سے میری ملاقات ایک شاپنگ سنٹر میں ہوئی تھی ۔ ہم دونوں نے شاید ایک دوسرے میں کشش محسوس کی کیونکہ ہم جلد ہی ایک دوسرےکی دوست بن گئیں ۔ آپ کو بھی ایسا اتفاق ہوا ہوگا کہ ایک اجنبی سے مل کے یوں محسوس ہوا ہو کہ اس سے مدت سے آشنائی ہے یہی ہمارے ساتھ ہوا ۔ أس کو کسی ملنے والے کے لئے گفٹ خریدنا تھا اور شاید فیصلہ نہیں کرپارہی تھی کہ کونسا بہتر رہے گا ۔ مجھے دیسی سمجھ کر اس نے اپنی الجھن بتائی تو میں نے موقع محل کے مطابق أسے اپنی رائے دی اور وہ بہت خوش ہوئی کہ میں نے بھی أسے وہی بتایا جو اسے بھی پسند تھا ۔ میں تو شاپنگ کرچکی تھی اس لئے ادائیگی کے لئے لائن میں لگ گئی ۔ کچھ دیر بعد یاسمین بھی آگئی اور میرے پیچھے کھڑی ہو گئی ۔ لائن بڑی تھی ۔ ہم دونوں باتیں کرنے میں لگ گیئں ۔ میں نے محسوس کیا کہ یاسمین سے باتیں کرتے ہوئے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا اور وہ بھی مجھ سے مل کرخوش نظر آرھی تھی ۔ اپنی باری پر ادائیگی کر کے ہم باھر آئیں تو میں نے یاسمین سے کہا کہ ایک کوفی ہوجائے وہ میری آفر پر میرے ساتھ قریبی کورنر پر کوفی شاپ میں داخل ہوئی ۔ ہم دونوں کوفی اور سنیکس لے کر ایک ٹیبل پر براجمان ہو گئں اور ایک دوسرے کے بارے میں جاننا شروع کردیا یعنی تفصیلی تعارف ۔ اس کے بعد پھر ملاقات کے وعہدے پر ہم اپنے اپنے گھر چلی آئیں ۔ اس طرح ہم میں ایک تعلق سا پیدا ہوگیا ہماری طبیعت خیالات کافی ملتے جلتے تھے جس کی وجہ سے ہم میں جلد ہی پکی دوستی ہوگئی ۔ شروع میں ہفتہ میں ایک بار پھر دوبار ملنا شروع ہوگیا اور جلد ہی ہم روزانہ ملنا شروع ہو گئیں چونکہ ایک ہی بلاک دور تھے ایک دوسرے سے تو کئی بار دن میں ایک سے زیادہ بار بھی ملاقات ہوجاتی ۔ اب شاپنگ پر جاناہو یا پکنک پر ہم دونوں اکٹھے ہی جاتیں اور ہماری دوستی کی بدولت ہمارے خاوند بھی ایک دوسرے سے نہ صرف متعارف ہوئے بلکہ أن دونوں میں بھی دوستی ہوگئی ۔ اکثر اوقات ہم ڈنر ایک دوسرے کے ہاں کرتے ۔ اب دونوں فیملیز میں کافی انڈر سٹینڈنگ ہوگئی یاسمین مجھ سے پانچ سال چھوٹی تھی میں أس وقت تقریبا تیس سےکچھ اوپر ہونگی۔ میچور ہو کر بھی ہم دونوں کی طبیت سے بچپنا نہ گیا تھا بعض اوقات تو ہم دونوں ٹین ایجرز کی طرح حرکتیں کر گذرتیں تھیں ۔ وہ مجھے آپا یا آپی کہتی تھی ۔ اور میں أسے یاسمین ہی کہ کر مخاطب کرتی ۔ ہم ایک دوسرے کی رازدار بن چکی تھیں ۔ ہم پسند ناپسند فینٹا سیس اور خواہشات شئیر کرلیتی تھیں اور ہم مل کر کئی بارکسی نہ کسی کو مذاق کا نشانہ بنانے سے بھی نہ چوکتیں ۔ کسی ہینڈ سم مردانہ وجاہت کے حامل فرد کو دیکھ کر جب دل دھڑکنا بھول جاتا اور ٹانگیں بے جان محسوس ہونے لگتیں تب بھی ہم مذاق کرنے سے باز نہ آتیں ۔ یاسمین اگر تم کو چانس ملے تو کیا کروگی ، میں یاسمین سے پوچھتی ، ارے آپی یہ تو بس دیکھنے کی چیز ہے اس کو دیکھ دیکھ کر بھیگتی اور گیلی ہوتی رہتی ۔ آنکھیں اس کی بلائیں لیتی رہتیں ۔ سچی مچی ، ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ ۔ یاسمین ایک ٹھنڈی آہ بھر کر ایک ہی سانس میں کہہ جاتی ، میں قہقہہ لگا کر کہتی ارے یاسمین دیکھنے کی چیز تو اس نے چھپارکھی ہے تو یاسمین شرمانے کی اداکاری کرتے ہوئے کہتی۔ آپی تم بھی نا ۔ خیر اسی طرح ہمارا مذاق اور نوک جھونک چلتی رہتی یک بار ہم دونوں ہسپتال گئی ہوئی تھیں یاسمین کی اپوائمنٹ تھی ابھی اس کا ڈاکٹر ایمرجنسی میٹنگ میں تھا اور ہم دونوں وارڈ کے دروازے کے باھر ایک بنچ پر بیٹھی خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور اچھے جُولی موڈ میں تھیں ۔ اچانک یاسمین بولی أف آپی دیکھ اس خوبصورت جوڑے کو، میں نے أس طرف گردن گُھما کر دیکھا جدھر وہ دیکھ رہی تھی ۔ مین گیٹ کی طرف سے ایک پاکستانی جوڑا آرہا تھا اور اتنی خوبصورت جوڑی تھی کہ نظر لگنے کا خطرہ تھا أسے ۔ میرے زہن میں فورا ایک شرارت آئی اور یاسمین سے بولی کہ دیکھ اس بانکے کو نروس کرتی ہوں ، یاسمین بولی ۔ آپی اس کی بیوی ساتھ ہے ، میں نے ان سُنی کرتے ہوئے مرد کو اشارا کیا ، جلدی جلدی چلتے ہوئےپاس آ کر أس نے استفہامیہ نظروں سے میری طرف دیکھا ۔ اس کی بیوی پیچھے رہ گئی تھی ۔ میں شرگوشیانہ انداز میں بولی سر آپکی زپ کُھلی ہوئی ہے ۔ اتنے تک اس کی وائف بھی قریب آگئی تھی ۔ أس کے چہرے کے تاثرات بدلے جیسےکچھ سوچ رہا ہو مگر أس نے کوئی بات نہیں کی اور وارڈ کے دروازے پر جاکر اس نے وائف کے لئے دروازہ کھولا اور جب وہ اندر داخل ہوگئی تو اندر جاتےہوئے اس نے اپنی زپ پر ہاتھ لگا کر چیک کیا وہ تو بند تھی ، اس نے ہماری طرف دیکھا اور خجالت بھری مسکراھٹ مسکرا کر اندر بیوی کے پیچھے چلا گیا ۔ ہم دونوں نے ایک قہقہہ ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے ہوے لگایا ۔ یہ مذاق ہم عموما کرتی تھیں ۔ ہر آدمی کا رد عمل مختلف ہوتا کئی تو وہیں چیک کرنے لگ جاتے ۔ بس یونہی دل لگی کرتے رہتے یاسمین کی باری آنے میں ابھی کافی ٹائم تھا ۔ اس کےڈاکٹر کی میٹنگ کی وجہ سے شیڈول ہی لیٹ ہو گیا تھا ۔ ابھی پندرہ منٹ نہیں گذرے تھے کہ وہی بھلے مانس اکیلے ہی باہر نکلے اور سیدھا ہماری طرف آئے اورمجھے کہنے لگے کہ جی غلطی سے آج زپ بھی بند نہیں کرسکا اور انڈر وئیر پہننا بھی بھول گیا ۔اتنا سنتے ہی میری نظر بے ساختہ اس کی زپ پر پڑی جو کھلی ہوئی تھی اور أس کا نیم ایستادہ براؤن کوبرا نظر آیا میرے تو خجالت سے پسینے چُھوٹ گئے اور نظریں جھک گئیں اس نے ایک وزٹنگ کارڈ یاسمین کو دیا کہ میں بیرسٹر ایٹ لاء ہوں کبھی ضرورت ہو تو میری خدمات حاضر ہیں ۔ یاسمین کے ہاتھ سے وہ کارڈ میں نے لےکر پھینک دیا ۔ اس نے کوئی اور بات نہ کی زپ بند کرتے ہوئے واپس وارڈ میں چلا گیا یاسمین بولی آپی نہلے پر دھلا اس کو کہتے ہیں اور جھک کر اس کا کارڈ أٹھا لیا میں خجالت اور شرمندگی سے سر جُھکائے خاموش رہی ۔ مُذاق میں بات کافی بڑھ گئی تھی اور میرا جی چاہتا تھا کہ میں وہاں سے بھاگ جاؤں ۔ کچھ سُجھ نہیں رہا تھا کہ کہاں جا مروں ۔ غلطی میری اپنی تھی پہل میری طرف سے ہوئی تھی اس کا ردِ عمل غیر متوقع ضرور تھا مگر میں اس کو بلیم نہیں کرسکتی تھی ۔ یاسمین نے میرا موڈ خراب دیکھ کر لطیفے وغیرہ سنانے کی کوشش کی مگر مجھے کچھ بھی تو اچھا نہیں لگ رہا تھا اتنے میں یاسمین کی ٹرن آگئی اس کا نام پکارے جانے کے ساتھ ہی ہم دونوں وارڈ کے اندر چلی گئیں وہ ڈاکٹر آفس میں داخل ہوئی اور میں باھر ویٹنگ روم میں بیٹھ گئی ۔ اچانک مجھے خیال آیا وہ بھی یہیں ہوگا ۔ میں نے چور آنکھوں سے ادھرأدھر نظر دوڑائی وہ مجھے نظر نہیں آیا میں نے سکون کا سانس لیا اب میں اس کی حرکت پر حیران ہو رہی تھی ۔ کُھلی زپ کے ساتھ وہ باھر نکلا اور بنا انڈر وئیر پہنے وہ چل کے ہمارے پاس آیا ۔ اگر کوئی دیکھ لیتا تو وہ اندر بھی ہوسکتا تھا بلا کی خوداعتمادی کا أس نے مظاھرکیا تھا مگر کیا وہ سچ مچ انڈر وئیر نہیں پہن کر آیا تھا یا وہ پہنتا ہی نہیں تھا ۔ را ئٹ سائیڈ دیکھا تو بیت الخلا تھا ۔ مجھے خیال آیا ۔ أس مرد شریف نے بیت الخلا میں جاکر انڈر وئیر اتارا ہوگا اور پھر باھر ہماری طرف گیا ہوگا ۔ اب چونکہ اکیلی تھی اس لئے خیالات کی یلغار تھی اور میں تھی ۔ ۔ اچانک پنٹ کی کھلی زپ کے اندر جو جھلک دیکھ پائی وہ میرے سامنے آگئی ۔ ایک أچٹتی ہوئی نظر ہی أس پر ڈالی تھی جس کا تاثر کوئی بُرا نہ تھا اب جو اس کے بارے خیال کیا تواقرار کرنے پر مجبور ہوں کہ واقعی جیسے اس کی پرسنلیٹی غضب کی تھی ۔ چھ فیٹ قد چوڑے شانے گورا چٹا رنگ نیلگوں آنکھیں اور چھوٹی چھوٹی مونچھیں اس کی شخصیت چھا جانے والی تھی، اسی طرح اس کا نیم ایستادہ کوبرا بھی اپنا جواب آپ ہی تھا ۔ درحقیقت وہ بہت ہی پیارا دکھا مجھے ۔ یہ سوچ کر میں شرما کے مُسکرادی ۔ ،، آپی کیا بات ہے شکر ہے آپ کا مُوڈ تو ٹھیک ہوا ۔ یاسمین ڈاکٹر کو دکھا کر آچکی تھی ۔ میں نے کہا میرے موڈ کو کیا ہونا تھا ، سچ بولو اب کیا سوچ ری تھیں آپ ، یاسمین نے سوال داغا ، ارے کچھ نہیں یوں ہی جو ہوا اچھ نہیں ہوا میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا ، اوہ میں نے سمجھا شاید آپ کُھلی زپ کے بارے میں سوچ رہی تھیں ، یاسمین نے چُٹکی لی،۔ چل ہٹ میں کیوں سوچنے لگی اس کے بارے ، میرا لہجہ خود میرے جھوٹے ہونے کی گواہی تھا جسے ہو سکتا ہے یاسمین نے بھی محسوس کیا ہو ۔ وہ بولی ، کچھ بھی کہیں میں نے بھی دیکھا ہے چیز تو زبردست تھی ابھی تک گُدگُدی ہو رہی اس نے نیچے ٹانگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تومیں مُسکرادی۔ اب ہم قریبی فارمیسی پر میڈیسن لینے کو رُکے اور لے کر پلٹے تو دیکھا تو وہ میاں بیوی بھی کار پارک کرچکے تھےاور اتر کر ہماری طرف ہی بڑھے آ رہے تھے اب ہم قریبی فارمیسی پر میڈیسن لینے کو رُکے اور لے کر پلٹے تو دیکھا تو وہ میاں بیوی بھی کار پارک کرچکے تھےاور اتر کر ہماری طرف ہی بڑھے آ رہے تھے ۔ اب کوئی چارہ کار نہ تھا أنہوں نے بھی میڈیسن لینی ہوگی ۔ وہ صاحب سیدھا ہمارے پاس آکر رُکے ہائے ، مجھے جاوید کہتے ہیں اور یہ میری وائف شمیم جاوید ہیں ۔ ہم نے بھی ہائے بول کے شمیم سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا، جی میں سیما ناز ہوں اور یہ میری دوست یاسمین سکندر ہیں ۔ جاوید نے شاید بیوی کی تسلی کے لئے بات بنائی اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ صبح جس کیس کا آپ نے اشارہ کیا تھا وہ فکس ہوجائیگا۔ اصل میں صبح جب میں نے ان سے کُھلی زپ کی بات کی تھی تو أن کی وائف تھوڑا دور ہونے کی وجہ سے جان نہ پائی تھیں کہ بات کیا ہوئی تھی ۔ ۔ اوہ تھینک یو جاوید صاحب ، میں نے نظریں چُراتے ہوئےجواب دیا اور شمیم سے کہا ، آپ سےمل کر بڑی خوشی ہوئی ۔ ہم تھوڑا جلدی میں ہیں اس لئے ہم چلتے ہیں اجازت دیں ۔ اور ان کا جواب سُنے بنا جلدی سے گاڑی میں جاکر سانس لی ۔ میرا تو سانس پھول گیا تھا جیسے میلوں بھاگ کر آ رہی ہوں ۔ یاسمین ڈرائیونگ کر رہی تھی اور میرا بغورجائزہ لے رہی تھی ۔ گھر کے قریب ہم لوگ کافی شاپ میں گپ شپ لگاتے تھے أس نے گاڑی اس کے سامنے پارک کی تو میں نے کہا یاسمین اندر نہیں جاتے یہیں کافی لے آؤ، وہ اندر جاکے د و کوفی مگ لے آئی ۔ کہنے لگی کیا خیال ہے ، میں نے حیرانگی سے پوچھا ، کس بارے میں ؟، ارے جاوید صاحب کو کیس دیں کہ نہیں وہ آنکھ مینچتے ہوئے بولی ۔ ارے چھوڑ یار ، وہ در اصل میرا عندیہ لینےکی کوشش میں تھی ۔ یوں ہی ہلکی پھلکی بات چیت کے بعد یاسمین نے مجھے گھر ڈراپ کیا اور جانے سے پہلے مجھے جاوید کا وزٹنگ کارڈ دیا ۔ میں نے کہا یاسمین تم خود اسے اپنےپاس رکھو مجھے ضرورت نہیں ۔ اورگھر کے اندر داخل ہو گئی ۔ کافی اپ سیٹ تھی میں ۔ سیدھا غسل لینے کے لئے باتھ روم گئی ٹب میں نیم گرم پانی فل کیا اور اس میں دراز ہوگئی میں کافی سُبکی محسوس کر رہی تھی اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ اکیلے میں خوب رودوں ۔ میرا تجربہ ہے جب بھی ایسی صورت حال ہو کہ سر بھاری اور دل اداس اور بوجھل ہوتو رولینے سے کافی سے زیادہ شانتی محسوس کرتی ہوں ۔ سو جیسے جیسے آج کے واقعے پر غور کرتی اتنا ہی اپنی نادانی اور پریشانی پر آنسو نکلتے ۔ کافی دیر کے بعد جسم کا تناؤ کچھ کم ہوا ۔ ایک تو گرم گرم آنسو اور ٹب کا نیم گرم پانی تریاق ثابت ہوا ۔ میں نے گرم شاور لیا اور باھر آ کر کچن میں گئی اور جُوس لے کر ٹی وی لگایا اور انجوائے کرنے لگی ۔ ٹی وی کے ایک چینل پر بیسک انسٹنکٹ مل گئی ۔ میری پسندیدہ مووی تھی ایک دو بار پہلے بھی دیکھ چکی تھی ایک بار تو مووی تھیٹر میں یاسمین کے ساتھ دیکھی تھی ۔ پھر بھی اسی کو دیکھنے لگی ۔ مووی دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کیوں نہ رضا کو فون کروں تاکہ آتے ہوئے ڈنر کے لئے پارسل ہی لیتے آئیں کہ میرا من کچھ کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ میرے میاں رضا آبھی گئے ۔ میں نے جلدی جلدی ڈنر تیار کیا اورڈنر کرنے کے بعد پھر ٹی وی دیکھنے لگ گئے ۔ کیا بات ہے جانم ، کچھ پریشان نظر آرہی ہو تم ۔ رضا نے تشویش بھرے لہجہ میں پوچھا ، نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں جانی ، آج ھسپتال گئی یاسمین کے ساتھ اور بور ہوتی رہی ہوں اس لئے تھوڑی تھکاوٹ محسوس کر ری ہوں میں جماہی لیتے ہوئے بولی ، میں واقعی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی ، تھوڑی دیر بعد میں نے کہا ، رضا ڈارلنگ میں تو بیڈ روم میں جارہی ہوں ۔ شب بخیر ۔ ، ٹھیک ہے میں بھی آتا ہوں خبروں کودیکھ کے میں پیٹی برا میں سوتی ہوں لائٹ آف کی کھڑکی سے چاند کی چاندنی نے ہمارے بیڈ کو روشنی کے ہالہ میں لے رکھا تھا ، میں بیڈ پر دراز ہوگئی اور لیٹتے ہی میری آنکھ لگ گئی ۔ کچھ دیر گذری ہوگی کہ رضا آئے اور بیڈ پر لیٹ گئے ۔ میں ابھی پوری طرح سو نہیں پائی تھی اس لئےسوتے میں محسوس کررہی تھی ۔ میں پہلو کے بل لیٹی ہوئی تھی رضا نے مجھے پیچھے سے لپٹا لیا ۔ میں نے کسمساتے ہوئے کہا ، رضا میں تھکی ہوئی ہوں جانی ،، تم کو بھی آج ہی تھکنا تھا ، تم کو پتا تو ہے کہ آج کونسی رات ہے ،، اور میرے ہاتھ پکڑ کر اپنے اکڑے ہوئے پر رکھ دیا ۔ میں نے أسے آہستہ سے دبا کر پوچھا ،،کونسی رات ہے آج ،، جب انہوں نے کہا چاند کی چودھویں رات ہے ،، تو فوری أٹھ گئی اور رضا سے بولی سوری رضا مجھے صبح یادتھا کہ آج تماری رات ہےاور میں نے سوچا یاسمین کے ساتھ ہسپتال سے ہو کر آونگی تو تمہری ڈش صاف کر رکھوں گی اور سچ جانی پھر زہن سے نکل گیا ۔ در اصل چاند کی چودھویں اور پندرھویں دو راتوں کو رضا اپنے آپ میں نہ رہتے تھے ۔ چونکہ معمول سے ہٹ کر ان میں وحشیانہ پن آجاتا تھا وہ طبیعت میں گرانی اور بے چینی محسوس کرتے اور شروع شروع میں تو مارنے مرنے پر بھی تُل جاتے پھر میں نےسیکس کرنے کی ٹرائی تو آہستہ آہیستہ بہتر ہوتے گئے سیکس وحشیانہ مجھے بھی اچھا لگن لگا ہے ۔ آج شام جب وہ آئے تھے تو ان کی نظروں میں وحشت تو میں نے محسوس کی تھی مگر اپنے خیالوں میں ایسی گم تھی اس طرف خیال ہی نہ گیا ۔ اب انہوں نے مجھے گلے سے لگا کر بھینچا اورمیرے پورے جسم پر ہاتھوں کو ہولے ہولے پھیرنے لگ گئے ۔ میں نے ان کا ہاتھ میں لے رکھا تھا اسے مساج کرنے کے ساتھ ساتھ ہولے ہولے دبا رہی تھی ۔ شروع میں تو میری طبیعت اس طرف مائل نہ تھی مگر رضا کی جو حالت ہوتی اس کا احساس کرکے اس کا ستھ دینے کا فیصلہ کیا ۔ مگر جب ان کا ہاتھ میں لیا تو جاوید کی کھلی زپ کے اندر کی جھلک کی طرف خیال چلا گیا میں نے فوری جُھک کر اس کے دوتین بوسے لئے ۔ ادھر رضا نے بھی میری طرح بے صبری دکھائی اور پینٹی کے اوپر سے ہی رانی کو کُجھانے لگے ۔ میں نے ٹانگیں زرا کھول دیں اور ان کے ہونٹ ہونٹوں میں لے کر چبانے لگی ۔ رضاکے پتلے پتلے ہونٹ میری کمزوری ہیں ۔ رضا نے میری پینٹی کو کھینچا تو میں نے تھوڑا اوپر أٹھ کر ان کا اپنی پینٹی أتارنا آسان کردیا انہوں نے گھٹنوں تک پینٹی اتاری تو میں نے پاؤں کی مدد سے اتار کے نیچے پھینک دی ۔ اب أنہوں نے برہنہ رانی پر ہاتھ سے مساج کرنا شروع کر دیا اور درمیانی أنگلی پر دباؤ بھی ڈالتے ۔ میرے ہاتھ میں ان کا فولادی ہتھیار تھا اور میں اس وقت اپنے آپ کو خوش قسمت ترین سمجھ رہی تھی جیسے جیسے چاند اوپر آتا جار رہاتھا جاوید کی حالت بدلتی جا رہی ۔ أس کے ہاتھوں میں سختی آرہی تھی

Comments

Popular posts from this blog

ہادیہ کی چدائی

اپنی بیوی کی گانڈ ماری