مشرقی بیوی بنی مغربی سکول گرل urdu sexy story
part 1
میں بہت سے دیسی خاندان آباد ہیں جن کو سب سے بڑا مسلہ جو درپیش ہے وہ کلچر ڈیفرنس کا ہے۔ دیسی مرد حضرات تو بدیسی کلچر کے تمام پہلوئوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اپنی خواتین کو بدیسی کلچر کے پاس بھی نہیں بھٹکنے دیتے۔ لیکن بہت سی دیسی خواتین چھپ چھپا کے مغربی کلچر کو خوب انجوائے کرتی ہیں اور دیسی مرد حضرات کو بالکل بھی پتہ نہیں لگنے دیتی ۔
یہ کہانی بھی ایک ایسی پاکستانی عورت کے بارے میں ہے جس تعلق ایک روایتی پاکستانی مڈل کلاس فیملی سے ہے ۔ مغرب آنے سے پہلے یہ عورت بالکل ویسے ہی اپنی زندگی گزار رہی تھی جیسے باقی پاکستانی خواتین اپنی شادی شدہ زندگنی گزارتی ہیں۔ یعنی بچے پیدا کرو اور پھر انکی پروش میں لگ جائو اور اپنی تمام قسم کی خواہشات کا گلہ گھونٹ دو۔ پاکستانی خواتین جن کا تعلق روایتی مڈل کلاس خاندانوں سے ہے نوے فیصد جنسی تاسکین سے ناآشنا ہوتی ہیں۔ حالانکہ ہر عورت اوسطً چار سے بچے اپنی زندگی میں پیدا کرتی ہے لیکن پھر بھی جنسی تسکین کیا ہوتی ہے اس بارے اسکو کچھ پتہ نہیں ہوتا
اس کہانی کے مرکزی کردار کا نام ببلی (اصل نام بدل دیا گیا ہے)ہے ۔ ببلی کی شادی بالی عمریعنی سولہ
سترہ سال کی عمر میں ہی ہوگئی تھی۔ ببلی کو پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن شادی کی وجہ سے اسے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی ۔
ببلی کا میاں ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھا۔ اور سال یا دوسال بعد پاکستان ایک مہینے کی چھٹی پر چکر لگاتا۔ ببلی انتہا درجے کی شرمیلی عورت تھی۔ شادی سے پہلے وہ بالکل بھی نہیں جانتی تھی کہ سیکس اور جنسی لذت کس بلاں کا نام ہے۔ ببلی کا میاں بیرون ملک رہنے کے باوجود بھی ایک انتہا ئی روایتی اور رجعتی خیالات کا مالک انسان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے شادی کے بعد اپنی بیوی ببلی کو اپنے ساتھ بیرون بلک لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔
اب سے ایک سال پہلے ببلی کے شوہر کا پاکستان واپی پر شدید روڈ ایکسیڈنٹ ہوا جس میں اسکی ریڑھ کی ہڈی پر شدید چوٹ آئی ۔ ببلی کا میاں کئی مہنے چلنے پھرنے سے قاصر رہا اور بستر پر ہی پڑا رہا۔ بیرون ملک جس کمپنی میں ببلی کا شوہر کام کرتا تھا انہوں نے کمپنی پالیسی کے تحت اس کا علاج معالجہ مفت کروانے کے لیے ببلی کے شوہر کو بیرون ملک بلوایا۔ چونکہ وہ بغیر سہارے ابھی چل نہیں سکتا تھا لہذا ببلی کو بھی اپنے شوہر کے علاج کے سلسلے میں بیرون ملک اس کے ساتھ آنا پڑا۔
ببلی کا شوہر گھر میں سب بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور گھر کا سربراہ تھا۔ گھر کا سارا خرچہ اسکی بیرون ملک کمائی پر چل رہا تھا۔ اس لیے وہ اپنا علاج کروا کر جلد از جلد ٹھیک ہونا چاہتا تھا۔ ببلی کے کل چار بچے تھے دوبڑے بچے تھے جو اب کالج میں زیر تعلیم تھے۔ چونکہ ببلی کا سسرال مشترکہ خاندانی نظام اپنائے ہوئے تھا اور سب اکٹھنے رہتے تھے لہذا وہ اپنے بچوں کو اکیلا اپنے سسرال چھؤڑ آئی تھی اور ان کی طرف سے بے فکر تھی۔
(اب اصل کہانی شروع ہونے والی ہے لہذا اب میں اب آپ سب کو ببلی کا تھوڑا سا تعارف کروا دوں)
ببلی کی اصل عمر تو 40 سال کے لگ بھگ تھی لیکن دبلی پتلی جسامت اور بےبی فیس کی وجہ سے وہ اپنی اصل عمر سے بیس سال کم لگتی تھی۔ پاکستان میں لوگ اکثر اسے اسکی بیٹی کی بڑی بہن سمجھ لیتے تھے۔ گھر میں ہر وقت جسمانی مشقت کا کام کر کر کے اسکا سارا جسم اور چہرہ پر کسی بھی قسم کی چھائیاں یا ڈھلک پن نہیں تھا۔ ببلی کے کالے سیاہ اور گھنے لمبے بال تھے جو اس کی تیس انچ کی کمر تک لمبے تھے۔ ببلی کی 34 انچ کی ڈی شیپ سڈول چھاتیاں تھیں۔ جن پر چوکلیٹی رنگ کے دو پیارے پیارے اور نرم گرم نپل تھے ۔ اس کے علاوہ ببلی کے 36 انچ کے سڈول اور خوبصورت وضع کے بٹکس تھے جو شلوار قمیض میں بھی نمایاں خدوخال دیکھاتے تھے۔
بیرون ملک آتے ہی کمپنی کے خرچے پر ببلی کے شوہر کا باقاعدہ علاج شروع ہو گیا۔ ببلی اپنے شوہر کے ساتھ ہسپتال میں ہی تھی اور اپنے شوہر کی خوب دیکھ بھال کر تی رہی۔3 ماہ کے مسلسل بہترین علاج کروانے کے باوجود ببلی کا شوہر صحت یا ب نا ہو سکا۔بلکہ چند میڈیکل پیچیدگیوں کی وجہ سے ببلی کا شوہر کومے میں چلا گیا۔
مزید دو ماہ کے علاج کے باوجود جب ببلی کا شوہر کومے سے باہر نا آسکا تو۔ ڈاکڑوں نے مویوس ہونے کے بعد ببلی کو جواب دے دیا۔ لیکن ببلی نے کمپنی اعلیٰ عہدیدارو سے درخواست کی کہ اس کے شوہر کا آخری سانس تک علاج جاری رکھے جائے ۔ کمپنی نے اس کی درخواست کو مان لیا اور ببلی کو اس کے شوہر کی جگہ پر متبادل کے طور پر ملازمت کی پیشکش کردی۔
ببلی ملازمت کی پیشکش سن کر پہلے تو بہت حیران ہوئی پر جب اس نے اپنی کم تعلیم کے بارے میں کمپنی کو آگاہ کیا تو وہ کمپنی کی طرف ایک اور نئی پیشکش سن کر مزید حیران ہو گئی۔ لیکن حیرانی کے ساتھ ساتھ بہت خوش بھی ہوئی۔ کمپنی نے ببلی کو اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرکے ملازمت اختیار کرنے کا کہ دیا۔ تعلیم کا سارا خرچ کمپنی نے اپنے ذمہ لینے کا وعدہ کر لیا۔ اس سلسلے میں کمپنی نے تمام انتظامات ایک ہفتے کے اندر اندر مکمل کرنے کا بھی اہتمام کر دیا۔
گو کہ ببلی اپنے شوہر کی بمیاری کی وجہ سے بہت پریشان تھی لیکن اسے اس بات کا بھی بہت حوصلہ ملا کہ کمپنی نے انہے اکیلا نہیں چھوڑا اور ہر ممکن مدد کی اور مستقبل میں مزید امداد کا بھی وعدہ کیا ملازمت اور تعلیم کے حصول کے ذریعے۔
ببلی کی تعلیم صرف میڑک تک تھی۔ لہذا کمپنی نے ایک ہفتے کے اندر اندر گیارویں گریڈ کے لیے ایک اچھے سکول میں داخلہ کروا دیا۔ اسکول کی انتظامیہ ببلی کی عمر کی وجہ سے تھوڑی پریشان تھی لیکن جب ببلی کی کا انٹرویو لیا گیا اور ببلی دیکھنے میں باالکل بھی بڑی عمر کی عورت نا لگی تو اسے گیارویں میں داخلہ دے دیا گیا۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے ببلی کو سختی سے یہ ہدایات دی گئی کہ وہ کسی کو بھی اپنی اصل عمر کے بارے میں نہیں بتائے گی۔ اس کے علاوہ ببلی کو سکول کی یونیفارم جو کہ منی اسکرٹ اور بلائوز تھی وہ پہنا ہوگی۔
اس شش و پنج میں تھی کہ وہ واپس پاکستان میں اپنی فیملی کو شوہر کی اب تک کی گھمبیر صورت حال اور کمپنی کی طرف سے دی گئی پیش کش کے بارے میں بتائے یا نہیں۔بہت سوچ بچار کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر والوں کو فی الحال اصل حقیقت کے بارے میں آگاہ نہیں کرےگی۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی ساس جو کہ دل کی مریضہ تھی اپنے بیٹے کے بارے میں کوئی بری خبر سنے۔ اس کے علاوہ ببلی چاہتی تھی کہ اس کے پورے سسرالی خاندان کا خرچہ جو کہ اس کا شوہر اٹھا رہا تھا وہ جونکا توں ہی چلتے رہے ورنہ گھر کا سارا نظام برباد ہو جائے گا۔کیونکہ گھر مین اور کوئی آمدن کا ذریعہ نہین تھا۔
لہذا ببلی نے قربانی دینے کا مظمم ارادہ کر لیا۔ ببلی کے لیے مغربی کلچر کے مطابق خود کو ڈھالنا بے حد مشکل تھا لیکن وہ اپنے شوہر کے علاج اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھی۔
کمپنی کا ایک ملازم ببلی کو گھر پر ہی سکول یونیفارم اور کتابیں و صلیبس دے گیاتھا۔ ببلی کو اسکول پہلے دن لیجانے کے لیے کمپنی کی طرف سے ایک گاڑی کا نتظام کر دیا گیا تھا۔ ببلی نے تمام کتابوں اور سلیبس کو اچھی طرح چیک کیا۔ فی الحال تو کتابیں اور سلیبس اس کی سمجھ بالاتر تھیں۔ لیکن اس نے خود کی تسلی دیتے ہوئے کتابوں کو اپنے بیگ میں رکھا اور اپنی یونیفارم کو چیک کرنے لگی۔
سرخ لائنوں والی سکرٹ اور سفید بلائوز کو دیکھ کر ببلی پریشانی ہو گئی۔ اس نے تو کبھی زندگی بھر سر سے ڈوپٹہ نہیں اتارا تھا وہ اب اس ادھے ننگے لباس کو کیسے پہنے گی۔بحرحال اس نے لباس کو پہن کرچیک کیا ۔ لباس بہت تھوڑا تنگ تھا۔ بلائوز میں اسکے 34ڈی کے سڈول گول گول ممے پھنسے ہوئے تھے اور بلائوز کو دیکھ کر ہی ممے کے سائز کا درست اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اسکرٹ بھی کافی چھوٹی لگ رہی تھی۔ ببلی کی گندمی تھائیز صاف نظر آرہی تھیں۔ ببلی نے جب آئنے میں خود دیکھا تھا وہ خودکو پہچان نہ پائی ۔ وہ بااکل ایک مغربی اسکول کی بچی لگ رہی تھی۔مغربی لباس زیب تن کر کرتے ہی ببلی چوت میں گیلا پن محسوس ہوااس کے علاوہ ببلی کے مموں کے نپل بھی تھوڑے سے اکٹر گئے۔ اس کی سمجھ میں نہی آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیوں محسوس کر رہی ہے۔
Comments
Post a Comment