کُھلی زپ urdu sexy story
part 2
نے ایک بار کہا تھا کہ چوودھویں رات کو بالکل صاف اور کلین ہو میں ہمیشہ
کلین رکھتی ہوں ہر ہفتہ میں صفائی مگر اس رات کے لئے تو میں خصوصی اہتمام کرتی تھی
مگر آج مجھ سے کوتاہی ہوگئی اور اب رضا جب ہاتھ سے اسے مساج کر رہے ہیں تو مجھے خود بال محسوس ہوتے اور گُد گُدی سی ہوتی ہے ۔ ان کی درمیانیی انگلی بار بار لکییر پر
دباؤ ڈالتی اور کسی وقت وہ أسے اپنی مُٹھی میں بھی بھر لیتے میری رانی کے لپس بھرے بھرے سے ہیں مگر سموتھ ہیں جب وہ ہاتھ میں لے لیں تو ان کا ہاتھ بھر جاتا ان کو شاید
اچھا لگتا ہو تبھی وہ مییرے بوسے لینے لگتے میں بھی ان کے ہونٹ چوسنے کا مزہ لیتی
انہوں نے ساتھ ساتھ میرے مموں پر برابر توجہ رکھی برا تومیں نے پینٹی کے أترتےہی أتار دی تھی ۔ میرے نپل تن گئے ۔ ادھر انہوں نے نچے چوت پر مساج جاری رکھا تھا اب أنگلی کا
دباؤ ڈالتے تو لکیر کُھل سی جاتی اور أنگلی چوت کے گیلا پن سے خود بھی گیلی ہوجاتی
اب چوت کا رس اس کے منہ پرآپہنچا تھا اوررضا کا ہاتھ اس کو تھپک رہا تھا جس کی
آواز بھی آرہی تھی ۔ میں مست ہوتی جارہی تھی رضا کے لن سے مجھے کُھلی زپ کا
خیال آرہا تھا ۔ میں نے اس کے اکڑے ہوئے کو بوسے دئیے پھر اوپر نچے چاٹا ۔ جس سے
رضا برانگیختہ ہو کر چوت پپر زوز زور کی تھپکی لگاتا میں نے لن کو منہ ڈال لیا
اور چوپا لگانے لگی ۔ رضا لیٹ گئے اور میری ٹانگیں اپنی طرف کر لیں میں سمجھ گئی اب
جانی اسے کاٹ کھائے گا اس کا منہ چوت کے قریب آیا اور سُونگھنےلگا تو اس کی گرم سانسیں محسوس کر کے میں کانپ أٹھی ۔ اس نے انگلی ڈال کے رس نکال کے چکھا اور پھر
اس نے چوت کے لپس پر بوسہ دیا اور پھر چوسنے لگا میں چوپا لگا رہی تھی اور مزے سے
دوھری ہوئی جارہی تھی ۔ رضا جانتا تھا کہ میں زیادہ دیر نہیں نکال پاؤں گی چوت کے دانے
پر ہلکے ہلکے بائٹ کرتا اور پھر چوسنے لگتا ساتھ ساتھ انگلی بھی کرتا میں نے دو تین
چار جھٹکے لئے اور جھڑ گئی سارا رس رضا نے پی لیا چوت بہنے کے باوجود چمنی
ہئی تھی ایک آگ لگی ہوئی تھی اس میں ، میں رضا کے لن کو چوس رہی تھی کہ رضا
نے میرے بال پکڑ کراوپر آنے کا اشارہ کیا میں تو یہی مانگ رہی تھی رضا سیدھا ہوکر
لیٹے تو میں ان کے اوپر بیٹھنے لگی تو رضا نے ساتھ پڑے ہوئے کپڑے سے میری چوت صاف کی او رانگلی پر کپڑا لپیٹ کر اندرسے بھی خشک کی پھر میں نے لن کو پکڑ کر چوت کے اوپر مسلا جس سے چوت اسے اندر لینے کو تیار ہوگئی میں نے لن کی ٹوپی پر چوت
کے منہ کو رکھا اور ایکدم بیٹھ گئی اکڑا ہوا لن غڑاپ سے سب کچھ چیرتا ہوا اندر جا ٹکرایا میں مستی میں سر پٹختی اوپر نیچے ہونے لگی کبھی پیچھے کی جانب ہوتی تو کبھی آگے ہو کررضا کے ہونٹ کاٹنے لگتی ۔ میں مدھوشی میں ألٹی سیدھی حرکتیں کرتی رضا میرے مموں کو پکڑے ان کو دباتا کبھی سر أٹھا کر ان کو چومتا ایک مستی کا عالم تھا اور ہم تھے اچانک رضا نیچے سے ہلنے لگا میں نے اس کا ساتھ دیا اس کے جواب میں میں بھی اوپر نیچے ہوتی رضا نے جلد ہی ہتھیا ڈالدئیے اور وہیں لیٹے لیٹے ہی ایک پچکاری ماری چوت کی ساری دیواریں مزے سے دعائیں لگیں کیونکہ پچکاری بار بار نکلی جس سے چوت کے اندر کی آگ ٹھنڈی ہو گئی
میں رضا کے اوپر ہی گر گئی اور اس کا لن آہستہ آہستہ باھر کا راستہ دیکھنے لگا
تھڑی ہی دیر بعد چوت نے لن کا سارا رس پی لیا اور لن سُکڑ کے باھر آگیا ۔ رضا
میرے بالوں ہاتھ پھیرنے لگے میں ان کے چھاتی کے بالوں پر اپنے گال رگڑنےلگی
اور ان کے نپل کو چوسنے لگی ۔ چاند کے جوبن میں آنے میں تھوژا وقت رہ گیا تھا
ادھر رضا بے چینی محسوس کرنے لگے میں یونہی برہنہ کچن میں جار تھنڈا دودھ لے
آئی ۔ اور رضا کو پینے کو دیا وہ گھونٹ گھونٹ پیتے رہے اور میں انکی بلائیں لیتی
رہی ۔ آج کی چُدائی کا بڑا مزہ آیا تھا اور ابھی تو چاند نے کامل ہونا تھا ۔ میں نے رضا سے کہا ،، رضا تم لیٹ جاؤ،، وہ لیٹ گئے تو میں ان کا جسم دبانے لگی ان کا جسم اتنا گرم تھا
جیسے ایک سو چار کا بُخار ہو ۔ مگر میں جانتی تھی یہ بخار نہیں چاند کے ساتھ ساتھ یہ
بھی نیچے ہوتا جا ئے گا ۔ جب میں رضا کی رانوں کو دبانے لگی تو دیکھا کہ اس کا لن
پھ سر أٹھا رہا ہے میں اسے پیار کرنے سے اپنے آپ کو باز نہ رکھ سکی اور وہ مچل أٹھا
میں پیار سے أسے سہلانے لگی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ کھلی زپ سے باھر نکل
آیا ہو میں نے اسے منہ میں ڈال لیا اور اپنی زبان کی نوک سے اس کی ٹوپی کو کُجھانے لگی ، رضا کو مزہ ملا تو أس نے آنکھیں کھولیں اور مجھے بالوں سے پکڑکر اپنی طرف کھیچ کر ساتھ لٹا لیا اور مجھےگلے لگا کر اتنی زور سے بھینچا کہ میں سمجھی کہ میری کوئی
ایک آدھ پسلی ٹوٹ جائے گی اب میں نے اسے سنبھالنا تھا کیونکہ چاندجوبن پر آنے والا تھا
میں نےاسے چومتے ہوئے بٹھایا اور خود اس کے سامنے لیٹ گئی وہ میری طرف دیکھ رہا تھا
کچھ جانی پہچانی کچھ اجنبی نظروں سے ۔ میرے جسم ک وہ بڑے غور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
وہ میرے اوپر جُھک گیا پہلے اس نے میرے گال چُھوئے اور پھر
میرے ہونٹوں کو مسلنے لگا
اور پھر اس نے میرے ہونٹوں کو چوما اور پھر گردن کو چومتے ہوئے میرے مموں کو ہاتھ میں لے کر مساج کرتا رہا ۔ ۔ اس نے نپلز منہ میں لےکر چوسے او بڑے پیار سے مسلے
پھر وہ پیٹ کو چومتا میری ناف کو بڑے غور سے دیکھتا رہا میری ناف زرا گہری ہے
اس میں پہلے انگلی گھماتا پھر اپنی زبان ڈال کر چاٹتا رہا ۔ میں اس کی عجیب وغریب حرکتیں
دیکھتی رہی مگر اب میں خود گرم ہونے لگی تھی ۔ میری چوت نئے سرے سے پھدکنے لگی تھی ۔ رضا میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھا میری چوت کو تاڑ رہا تھا ۔ اور دانےکو مسل رہا تھا
میں نے أس کے سر کے بالوں سے پکڑ کر اوپر کی جانب کھینچا اور ٹانگوں سے اس کی پیٹھ
کو جکڑ لیا اور ہاتھ سے اس کے لن کو پکڑ کر اپنی چوت پر ٹکا دیا اور دونوں ہاتھوں کا دباؤ
اس کے کولہوں پر ڈال کر آگے کی طرف دبایا اور خود اپنے چوتڑ کچھ اوپر کئے تو لن پھسلتا
ہوا اندر ہو گیا ۔ رضا سے بولی جانی مجھے چودو زور زور سے چودو ۔اور رضا نے ایک زوردار دھکا لگایا اور میرا انجر پنجر ہل گیا۔ رضا اب ایک مشین کی طرح شروع ہوگیا میں نے کچھ دیر تو اپنی ٹانگوں میں جکڑے رکھا مگر کب تک۔ أس نے میری ٹانگیں اپنے کاندھوں پر رکھ لیں او زور دار جھٹکے لگانے لگا ۔اس کا ہر جھٹکا مجھے مزے کے کنارے
پہنچا دیتا میں مست ہو کر رضا کو چومتی اور کاٹتی ۔ مجھے ایسا سرؤر مل رہا تھا جس کی خواہش ہر لڑکی عورت چودواتے ہوئے کرتی ہے ۔ میں چُد رہی تھی اور رضا ظالموں کی طرح مجھے ہٹ ہٹ کر چود رہا تھا وہ لن کو چوت کے منہ تک لے آتا اور پھر ایک زور دار دھکا لگاتا ۔ میں اب پوزیشن بدلنا چاہتی تھی کہ پیٹھ بل جھٹکے کھا کھا کر کمر دھری ہوئی جارہی تھی ۔ میں نے رضا سے کہا ، جانی میں گھوڑی بن جاؤں تم سواری کرنا بڑا مزہ آئے
گا ۔رضا کچھ بولا نہیں مگر میں نے ٹانگیں اس کےشانوں سے نیچے اتار کر گھوڑی کی
طرح کھڑی ہوگئی ۔ رضا نے پیچھے سے لن ٹکرایا تو مجھے ڈر لگا کہ کہیں غلط دروازے میں نہ داخل ہو جائے میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور اس دو زانو بنا کر اس
کے لن پر چوت ٹکادی اورر اوپر سے زور لگا کر اندر کرلیا اور آہستہ آہستہ گھوڑی کی
پوزیشن میں آگئی ۔ اب میں نے رضا کے دونوں ہاتھوں میں اپنے ممے دے دئیے اور خود
پیچھےاور آگے ہوئی ۔ رضا نےمیرا جواب دیا اور پھر شروع ہوگیا پتہ نہیں کتنے ہارس پاور
کا دھکا ہوگا ۔ میرا تو اندر باھر ہل کر رہ گیا مگر میں ایک ایک جھٹکے پر رضاکی بلائیں
لیتی ۔ میں پھر فارغ ہوچکی تھی چاند اپنے عروج پر جاکر آگے نکل چکا تھا ، رضا اب بھی
مستی میں تھا ۔ میں نے رضا کو کہا تھوڑا رکو اور اس کے نیچے سے نکل کر اس کے سامنے آکر اس کی ٹانگیں سامنے کی طرف سیدھی کرکے بٹھایا او ر اسے پیار کرنے لگی اس نے بے اختیار مجھے لپٹا لیا میں اسکی طرف منہ کر کے اسکی رانوں پر بیٹھی ہوئی تھی اس کا کھڑا لن میری ناف سے ٹکرا رہا تھا ۔ میں نے کپڑے سے اپنی چوت کا پانی خشک کیا او اس کے لن کے اوپر بیٹھ کر رضا کو چودنے لگی ۔ وہ بھی ساتھ دے رہاتھا میری چوت سُوج چکی تھی اب رضا کو فارغ ہونا تھا کچھ دیر تو اسی طرح رہے اور پھر اچانک رضا نے مجھے لٹادیا او میرےساتھ لیٹ گیا اس نے میری ٹانگ أٹھا کر لن میری چوت میں ڈالدیا یہ رضا کی پسندیدہ پوزیشن تھی کہ میں پیٹھ بل لیٹی ہوتی اور رضا پہلو بل لیٹ کر میری ٹانگ اٹھاکر اپنا لن ڈال دیتا اس طرح دونوں لیٹ کر کرتے۔ میں سمجھ گئی اس کی وحشت کم ہوگئی ہے وہ بڑے رومانٹک انداز میں چود رہا تھا میں نے تو آج رات بہت سواد لیا تھا ۔ دو چار سوادی جھٹکے لگا کر رضا بھی فارغ ہو گئے اور ہم دونوں اسی طرح ایک دوسرے سے چمٹ کر سوگئے ۔ رضاکی حرارت کافی کم ہوگئی تھی ۔ صبح رضا کے جگانے پر میریی آنکھ کھلی رضا کافی لئے کھڑا تھا ۔ میں نےکافی لیتے ہوئے اسکی طرف جو دیکھا تو ہنسی نہ روک سکی ۔ رضا کی گالوں پر میرے دانتوں کے نشاں صاف نظر آرہے تھے ۔ اس کی گردن اور سینہ پر نشان تھے ۔ رضا بولے رات کو تم کچھ زیادہ ہی مزہ دے رہی تھی ، رضا تم ہو بھی مزے دار ، اب اسے کیا بولتی کہ رات کو تمہارے ساتھ ساتھ کوئی او بھی ہمارے ساتھ تھا
زپ کھول کے ۔۔۔
میں نے رضا سے کہا جانی میں تو سونے لگی ہوں ناشتہ اٹھ کرکر لوں گی ،
اوکے جانم تم ارام کرو اور میرے لپس چوم کر ہنستے ہوئےبولے آج رات کا کیاپروگرام ہے ،
اوہ رضا رات کو تم نےمیری پُھدی کا پُھدا بنا دیا ہے اب ایک ہفتہ تو اسکے قریب
بھی نہ آنا ۔ ،میں اسے پھدی دکھاتے ہوئے بولی ۔ رات کو پینٹی پہنے بنا ہی سو گئی تھی ، رضا پھدی دیکھ کے کہنے لگے ارے یہ تو پہلے سے بھی سوہنی لگ رہی ہے اور ہاتھ سے اسے تھپکا ، مجھے تھوڑا سا درد محسوس ہوا، رضا نے مجھے گدگدیاں کرنی شروع کردیں ۔ میں بستر پر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی کہ رضا نے میری ٹانگوں کو قابو میں کیا اور اپنے ہونٹ میری چوت پر رکھ دئیے أف رضا کیا کرنے لگے ہو وہ کچھ نہ بولے بس چومتے رہے میرے سانس بھی بھاری ہونے لگے رضا نے چو م کر مجھے کہا اس کا شکریہ توادا کرنا تھا اور باھر نکل گئے ۔ مجھے مایوسی ہوئی تھوڑی دیر پہلے جو میں ایک ہفتہ تک ہاتھ نہ لگانے کا کہ رہی تھی اس کے ہونٹ لگتے ہی من چاہ رہا ابھی ایک راؤنڈ ہوجائے ۔
میں ٹیلیفون کی گھنٹیی پر أٹھ گئی اور ہیلو کہا تو یاسمین تھی
آپی ابھی تک سو ری ہو ،، یاسمین نے پوچھا
ہاں کیا ٹائم ہوا ہے ، میں نے پوچھا
آپی ایک بج گیا ہے ، اب تو ظہر ہونے کو ہے یاسمین نے بتایا
کیوں آپی رات کس کے خیال نے سونے نہیں دیا ، یاسمین چہکی،،
کسی کی یاد نے نہیں رضا نے جگائے رکھا ۔
اوہ آئی سی ، پر آپی اب أس کا کیا کرنا ہے
کس کی بات کر رہی ہویاسمین ، میں نے پوچھا
آپی آپ بھی ناں کل جس نے اپنا کارڈ دیا تھا جاوید ، بھول گئی کیا آپ
نہیں یاسمین تم خود ہی اس کو برت لو میرا بالکل من نہیں ہے ۔ میں نے تھوڑا ریزرو
ہونے کی کوشش کی ۔ یاسمین فورا بولی ایسےکیسے ہوسکتا آپی جب تک آپ ساتھ نہ
دیں تو کچھ بھی نہ کرپاؤنگی ۔ تو پھر تم کیاچاہتی ہو میں نے پوچھا ،
آپی آپ میرے ہاں آجائیں اس کو فون کرتے ہیں ۔ یاسمین نےتجویز دی ۔
ایسا کرو اسے فون کرلو بات آگے بڑھی تو میں پھر ہی کچھ سوچوں گی ۔
اچھا آپی اگر آپ ہہی چاہتی ہیں تو ایسے ہی کرتی ہوں ۔
ٹھیک ہے یاسمین آج تو تھکی ہوئی ہوں ، تم بات کرلو کل میں تمہارے ہآں آ جاونگی
پھر کچھ سوچتے ہیں کچھ کرنا ہے یا نہیں ۔ لگتا ہے یاسمین سچ مچ اس سے چدوانے
کے بے قرار ہے ۔ جاوید ہے ہی اتنا ینڈسم کہ یاسمین یا میرے جیسی کبھیی کھائے بنا نہ
Comments
Post a Comment