شباب حیات
ہیلو دوستو کیسے ہو امید کرتا ہوں سب ٹھیک ہیں ہی کہانی میری خود کی تخلیق ہے اس کے سارے کردار مرکزی اور صرف سوچ پر مبنی ہیں اک کہانی کے چھ حصے ہیں یہ کہانی ڈر خوف اور سکس کے گرد گومے گی امید کرتا ہوں اپکو پسند اے گی
ذیادہ وقت ضائع نہ کرتے ہوے کیانی کی ترف اتا ہوں
دسمبر کی اخری رات تھی ہوا میں خنکی بھری ہوئی ہوئی تھی گاوں سے دور اک سایہ کالے کپڑوں میں ملبوس خاموشی سے قبرستان کی طرف جا رہا تھا اس کی انکھوں میں اج اک عجیب سی چمک تھی جیسے اس کو اپنی زندگی کا مقصد ملنے جا رہا ہے۔دور کہی سے کسی جنگلی جانور کی اواز ماحول کو اور زیادہ خطرناک بنا رہی تھی وہ سایہ خاموشی سےقبرستان میں داخل ہوا اور اک پرانی قبر کے پاس اپنی مخصوص جگہ پر حصار بنا کر بیٹھ گیا اور کسی عمل میں مصروف ہو گیا
اچانک اک طرف سے ایک طوفان اٹھا اور اک قبر کے کھلنے کی اواز ائی اس میں سے اک بھیانک ڈائن باہر نکلی اس کے جسم سے جگہ جگہ سے خون بہ رہا تھا اس کے بالوں کی جگہ سانپ پھنکار رہے تھے اس کے مموے کسی جوان دوشیزہ کی طرح سامنے کھڑے تھے اس کی پھدی کالے بالوں سے بھری ہوئی تھی اور اس کے آتے ساتھ ہی ماحول میں اک منی کی ناگوار سی بدبو پھیل گئی اس نے اس حصار میں موجود شخص کو گھورااور ساتھ ہی اس کوچیخ کر کہا چلا جا اے ادم ذاد کیوں بے موت مرنا چاہتا ہے لیکن اس کی بات کا اس پر کوئی اثر نا ہوا اور وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہا اس بات کو دیکھ اس ڈائن کو غصہ آ گیا اس بالوں والے سانپ زور زور سے پھنکارنے لگے اس نے کچھ پڑھ کر اپنی پھدی پر ہاتھ پھیرا تو اس کی پھدی سے اک بھیانک سی مخلوق نکل کر اس حصار میں بیٹھے شخص پر حملہ اور ہوئی لیکن جیسے ہی حصار سے ٹکرائی اچانک دھماکے کے ساتھ غائب ہو گئی۔اپنا حملہ ناکام دیکھ کر اس کی انکھوں میں انگارے جلنے لگے اس نے پوری طاقت سے حصار سے اس شخص کو نکالنے کے لیے لپکی مگر جیسے ہی حصار سے ٹکرائی اس کے پورے بدن میں اگ لگ گئی اور اس کی بھیانک چیخوں سے پورا قبرستان دہل اٹھا پوری رات کوئی نہ کوئی مخلوق اسے ستاتی رہی مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا آخر وہ وقت آ گیا جس کے لہے اس نے اتنی مشقت برداشت کی تھی
اچانک اس کے سامنے اک قبر روشن ہوئی اور اس میں اک دروازہ بن گیا اس میں سے جو باہر نکلی اس کو دیکھ اس کے دل نے اس کے ساتھ بغاوت کرنا شروع کر دیا سامنے حسن کی ملکہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑی تھی اس کے پیچھے کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں مگر ملکہ حسن کی بات اور تھی اس کے ہونٹ موتیوں جیسے اس کی انکھیں جھیل سی گہری اس کے چہرے کو دیکھ چاند بھی شرما جاے اس کی صراحی جیسی گردن دیکھ کسی کی بھی سانسیں رک سکتی ہیں اس کے نیچے کا عالم دیکھنا کسی انسا ن کے بس کی بات نھی سونے جیسا بدن اس کی چھاتیاں 34 سائز کی گول مٹول ان ابھاروں کو چھو لینے سے ہی زندگی کا مقصد پورا ہو جاے اس کی پتلی بل کھاتی کمر کسی ہرن سے ملتی ہے اس کے ناف کی گہرائی ایسے جیسے زندگی اس میں فنا ہو رہی ہو اس کے نیچھے اس کی بنا بالوں کے بن چدی پھدی ایسے جیسے کسی نے قلم سے خوبصورت لائن لگائی ہو اس کی سڈول ٹانگیں ایسے جیسے سونے کی بنی ہوں غرض دنیا کے حسن کی ملکہ میرے سامنے کہڑی تھی
اتے ساتھ اس نے اس شخص کو پکارا
ملکہ: بولو اے انسان کیوں بلایا
انسان: اس نا چیز کا نام علی ہے اور ملکہ حسن سے ملاقات کا طلبگار ہے
ملکہ: بولو انسان ہم تمہارے سامنے کھڑے ہیں مانگو کیا مانگتے ہو کیوں کے تم نے تمام مشکلات کا بخوبی مقابلہ کیا اور ہمیں خوش کیا مانگو جو مانگنا ہے
علی: ملکہ میں شباب حیات کا طلبگار ہوں
ملکہ نے مسکرا کر کہا ہمیں پتہ تھا تم مرد زاد اس کے لیے ہی مجھے بلا سکتے ہو
علی: ملکہ اگر اپ جانتی ہیں تو کیوں مجھ ناچیز کا امتحان لے رہی ہیں
ملکہ نے مسکرا کر اس کو شباب حیات کا پیالہ دیا علی نے اس کو بڑی عقیدت سے پی لیا
اخری گھونٹ پیتے ہی علی کو اک جھٹکا لگا اور اس کے جسم میں اک عجیب سی ہلچل ہونے لگی ایسا لگا اس کے جسم میں طاقت کا پہاڑ پھٹ رہا ہے اس کے ساتھ ہی ملکہ جانے لگی اور اس نے علی کو اخری بات بولی تم نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر دی ہے اب تیرے بہت سے دشمن بنے گے مگر مجھے امید ہے تو ثابت قدم رہے گا
زندگی میں جس دن تم نے کسی مرد کے ساتھ سکس کیا اس دن تیری یہ طاقت ختم ہو جاے گی ان الفاظ کے ساتھ ملکہ غائب ہو گئی اور علی بے حوش ہو کر گر گیا
انکھ کھولنے پر علی اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا مگر پتہ نہیں کیوں علی کچھ بوجھل بوجھل لگ رہا تھا گھر آ کر علی نے باتھ میں گھس کر نہانا شروع کیا مگر اج علی کے جسم میں نمایاں تبدیلیاں تھیں جو اس کی بھی محسوس ہو رہی تھیں
علی نے نہا کر جیسے ہی شیشہ دیکھا تو خود کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اتنا حسن کے وہ خود اپنے اپ میں کھو گیا علی نے خود کو نہارا اور بیگ اٹھا کر کالج چلا گیا اج کالج میں سب اس کو اتنا بدلا بدلا دیکھ کر حیران تھے ان میں سب سے خاص علی کی انکھیں تھی جو کسی کو بھی اپنا دیوانہ بنا لینے کے لیے کافی تھیں اج لڑکیوں میں علی کافی مشہور تھا ہر کوئی اس کی انکھوں کی بات کر رہا تھا
صبا سارا دن علی کا نام سن سن کر تھک گئی تھی اس کو پتہ نہیں کیوں علی سے سخت نفرت تھی کالج میں اس کی اتنی تعریف اس کو غصہ دلا رہی تھی حد تب ہوئی جب رمشاء نے بھی علی کی تعریف کی اس وقت وہ اس پر پھٹ پڑی
صبا: بکواس بند کرو اپنی کیا صبح سے علی علی لگا رکھا ہے ارو خاص طور پر تم رمشاء تم کو اج کیا ہوا اس کی بڑی تعریف کر رہی ہو یاد ہے نہ اس نے پورے کالج میں تمہیں زلیل کیا تھا
رمشاء: صبا بات وہ نہیں ہے اس کی انکھیں جھیل سی گہری ہو گئی ہیںجب سے وہ کراچی سے ایا ہے بت نکھرا نکھرا سا ہے اک عجیب سی کشش اآ گئی ہے اس میں
صبا : خاموش اک لفظ بھی نہیں تیری عزت کی وجہ سے میںے اس کو تھپڑ مارا تھا اور اج تم کو اس میں کشش نظر اا رہی ہے
رمشاء: مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے میںے کیسے اس کو زلیل کیا اس نے صرف دوستی کے لیے ہی تو ہاتھ بڑھایا تھا مگر ہم نے اس کو اس کی اوقات گھٹا اور ناجانے کیا کیا کہا مجھے اب افسوس ہو رہا ہے
صبا : اتنا ہی دکھ ہو رہا ہے تودفع ہو جاو اس کے پاس میرے پاس کیا ہے
رمشاء: جانے دو یار مینے تو بات کی ہے تم اتنا کیوں بھڑک گئی جاو نہیں کرتی اس کا ذکر اب خوش اس کے ساتھ ہی رمشاء نے اس کے بائیں ممے کو زور سے مسل کر انکھ ماری جس سے صبا سسک کر رہ گیئ اور رمشاء کو مارنے کے لیے اس کے پیچھے دوڈی
علی اج سب کی باتوں کا محور رہا کالج کی لڑکیاں کیا ٹیچرز بھی اس پر فدا تھیں سارا دن علی کو دیکھنے کے بعد اخر میتھ ٹیچر ریحانہ سے رہا نہ گیا اور اپنی پھدی کی اگ کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے علی کو بولا
ریحانہ: علی تم دو ماہ سے کالج کیوں نہیں اے
علی : مس میں اپنے گھر گیا تھا کراچی
ریحانہ: تمہیں پتہ ہے امتحان میں 3 ماہ باقی ہیں کیسے کرو گے سب پڑھائی میں تم پہلے ہی بہت کمزور ہو
علی : مس میں کوشش کرو گا سب کور ہو جاے
ریحانہ: علی تم کالج ٹائم کے بعد میری بات سن کر جانا میں تمہیں کچھ نوٹس دوں گی
اس کے علاوہ تم اک گھنٹہ میرے گھر ٹیوشن لیا کرو گے
علی : جی مس ٹھیک ہے
میڈم ریحانہ کی عمر 29 سال ہے مگر ان کی ابھی شادی نہیں ہوئی ان کے مموں کا سائز 36 ہے اور بہت ڈیپ گلے پھنتی ہیں علی سمجھ گیا اب اسے کیا کرنا ہے
کرتے کرتے کالج سے چھٹی ہوئی اور وہ میڈم ریحانہ کے ساتھ ان کے گھر چل پڑا سارے رستے ریحانہ علی کو گھورتی رہی اور علی اس سب کے مزے لیتا رہا گھر میں مس اکیلی ہی رہتی تھی ان کی فیملی حیدر آباد میں تھی میڈم نے علی کو اندر بلایا اور بیڈ روم میں لے جا کر بیٹھنے کو بولا اور علی سے پوچھا کیا لو گے علی نے انکار کیا تو بولی اسے اپنا گھر ہی سمجھو شرماو مت یہا کوئی نہیں اتا میں اس گھر میں اکیلی رہتی ہوں تم ارام سے بیٹھو علی سمجھ گیا ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے علی نے کہا مس اپ ٹھنڈا ہی لے آئیں گرم ماحول بھی بہت ہو رہا ہے ریحانہ نے کہا میں سمجھ گئی کیا لانا ہے اور کس طرح ماحول کو ٹھنڈا کرنا ہے علی بولا جب سب کچھ اپنے پھلے سے ہی طے کیا ہوا ہے تو دیر کس بات کی
ریحانہ بولی پھلے میں فریش ہو لوں
Comments
Post a Comment