گاوں کا ڈاکٹر
میوں کی دن تھے اور میں پوری دل جمی سے سبق یاد کرنے میں لگا تھا کہ ہمارے ٹیچر نے سارہ کو ہوم ورک کرنے پر بہت مارنا شروع کردیا جب ماسٹر صاحب
مارنے پے آتے تو اُس پرایک جنون طاری ہو جاتا جس سے وہ اور ڈراونے لگنے لگتے تھے۔ وہ سارہ کو مار رہے تھے اور سب بچے سہمے اُن کو دیکھ رہے تھے۔ ماسٹر نے کہا کہ چٹھی ہو جائے تو اپنے ابو کو کہنا کہ مجھ سے مل لے اب بہت ہو گیا ہے۔ جب چھٹی ہو گئی تو سب بچے جانے لگے تو ماسٹر جی نے کہا کہ سارہ اپنے ابو کو بلانا نہ بھولنا ورنہ کل اس سے سخت سزا دونگا۔ سارہ سر ہلاتی ہوئی گھر روانہ ہوگئی ۔ میں گھر پہنچا تو امی نے فوراَََمیرے لئے کھانا لگا دیا ۔ کھانا کھا کر میں چارپائی پر لیٹا اچانک مجھے کچھ یاد آیا کہ میں تو اپنی کاپی جس پر میں نے آج ہوم ورک کرنا ہے کلاس میں بھول آیا ہوں۔ یہ سوچ کر کہ اگر آج ہوم ورک نہ کیا تو میری حالت بھی سارہ کی طرح ہوگی۔ یہ سوچ کر امی سے کہا کہ میں کاپی کلاس بھول آیا ہوں وہ لینے جا رہا ہوں امی نے کہا کہ بیٹا دوپہر ہے گرمی ہے شام کو لے لینا ویسے بھی وہ ماسٹر وہی تو رہتے ہیں میں نے کہا نہیں امی مجھے بہت ہوم ورک کرنا ہے تب ہی شام کو کھیل کے لئے فارغ ہونگا۔ یہ کہہ کر میں سکول کی طرف بھاگا۔ ہمارا گاوں میں دو سکول تھے ایک سرکاری اور ایک پرائیویٹ ۔ پرائیویٹ سکول ہمارے قریبی قصبے کے شاد خان نے کھولا تھا جو کہ آٹھویں جماعت تک تھا جب کہ سرکاری سکول پانچویں تک تھا۔ چونکہ شاد خان (ماسٹرجی) دوسرے قصبے کے تھے اس لئے وہ سکول کا ایک کمرہ اپنے رہائش کے لئے استعمال کرتا تھا۔ اور مزے کی بات کہ یہ سکول بھی ہمارے ابو کی ملکیت تھے جو کہ شاد خان کو کرائے پر دی تھی اس لئے میرے فیس مفت تھی۔ میں جب سکول پہنچا تو دروازے کے سامنے گیا تو دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا میں سیدھا اندر گیا اور اپنے کلاس سے فوراََ اپنی کاپی اُٹھا لی کہ ماسٹر جی کو پتہ بھی نہ چلے اور میں کاپی لے کر گھر چلا جاوں۔ جب میں کاپی لے کر ماسٹر جی کے کمرے سے گزرنے لگا تو مجھے اُس کے کمرے سے کسی عورت کی آواز سنائی دینے لگی۔ میں خیران ہوا کہ اس وقت ماسٹر جی کے کمرے میں کون خاتون ہو سکتی ہے اس تجسس کے ساتھ میں کھڑا رہا پھر سوچا کہ مجھے کیا ہے جو ہو ہونے دو۔ میں نکلنے لگا تو ایک آواز نے میرے قدم روک دئے وہ عورت کہہ رہی تھی کہ ماسٹر صاحب یہ آپ کیا حرکت کر رہے ہیں۔ ماسٹر جی نے کہا کہ شمشاد میں سارہ کا فیس معاف کر سکتا ہوں بس تم پانچ منٹ کے لئے میری بات مان لو ہم دنوں کا کام چل جائے گا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ سارہ کہ امی آئی ہے پر امی کیوں ماسٹر جی نے تو اُس کے ابو کو بلایا تھا۔ اس اثنا میں سارہ کی امی نے کہا کہ ماسٹر جی میں تو بڑے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس آئی تھی مجھے نہیں معلوم تھا کہ تمہارے ذہن میں یہ شیطانی حرکت جاگ گئی ہے۔ ماسٹر صاحب نے کہا کہ شمشاد تم حسین ہو اور جوان بھی اور مجھے پتہ ہے کہ تمہارا خاوند بیمار رہتا ہے اور شاید وہ تمہاری ضرورت پوری نہ کرسکتا ہو اس لئے اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرلیں تو کیا بری بات ہے یہاں کوئی بھی نہیں ہے اور یہ بات ہم تک رہے گی۔ یہ سن کر میں جانے لگا کہ شمشاد کی آواز نے پھر میرے قدم روک دئے کہ ماسٹر جی یہ سب تم ٹھیک نہیں کررہے اس کے ساتھ ایسا لگا کہ ماسٹر جی اُس کو کہیں زبردستی لے جارہے ہیں۔ میرے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ دیکھ لوں کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ ماسٹر جی کے کمرے کے پیچے ایک کھڑکی ہے میں وہی گیا تو اندر کا منظر نظر آرہا تھا ماسٹر جی نے شمشاد کو چارپائی پہ گرایا ہوا تھا اور اُس کو زبردستی چومے لے رہا تھا اور شمشاد خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ کہ اچانک ماسٹر جی نے اپنی شلوار اُتار دی یہ دیکھ کر شمشاد کی مزاحمت روک گئی اور ماسٹر جی نے جلدی سے شمشاد کی شلوار بھی نیچے اُتار دی ۔ ماسٹر جی کی پیٹھ میری طرف تھی پر شمشاد جس انداز سے ماسٹر جی کے نیچے دیکھ رہی تھی اُس سے لگ رہا تھا کہ شمشاد بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہے یہ بات ماسٹر جی نے بھی نوٹ کی اور فوراَ شمشاد کے دونوں ٹانگوں کو اوپر اُٹھایا اور اُس کے ٹانگوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اور کچھ دیر بعد وہ اگے پیچے ہونے لگا شمشاد بار بار کہہ رہی تھی کہ ماسٹر جی کوئی دیکھ لے گا مت کرو ماسٹر جی نے کہا کہ کوئی نہیں آتا اس وقت اور پھر تیز تیز آگے پیچے ہونے لگا اب پتہ نہیں کیا ہوا کہ شمشاد کے منہ سے آہستہ آہستہ آہ آہ کی آوازیں انے لگے مجھے کوئی سمجھے نہیں آرہا تھا کہ ماسٹر جی یہ سب کیا کر رہے ہیں ۔ ماسٹر جی پانچ منٹ تک یہ سب کرتے رہے اور اچانک وہ پیچے ہٹ گئے تو میں نے دیکھا کہ شمشاد کے پیشاپ کی جگہ سے کچھ سفید چیز گر رہی تھی شمشاد نے فوراََ بستر کے کپڑے سے اپنے پیشاب کی جگہ کو صاف کیا اور شلوار پہن کر یہ کہہ کر چلی گئی کہ ماسٹر جی اب میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ماسٹر جی نے کہا کہ تم تعاون کروگی تو میں بھی کرونگا۔ جب شمشاد نکل گئی تو ماسٹر جی غسل خانے میں گھس گئے تو میں بھی آہستہ آہستہ سکول کے گیٹ سے نکل کر گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ پر مجھے یہ جو بھی ہوا اس کی کوئی سمجھ نہیں آئی ۔ گھر پہنچا تو
امی سو چکی تھی میں بھی چارپائی پر آکر سو گیا ۔
جب نیند سے اُٹھا تو شمشاد اور ماسٹر جی کی وہ سب واقعات میرے زہن میں گھوم رہے تھے مجھے سمجھ نہیںآرہا تھا کہ ہم سب تو یا نہانے کے لئے شلوار اُتارتے ہیں یا پیشاب کے لئے پر ماسٹر جی نے چارپائی پر شمشاد کی شلوار کیوں اُتاری اور اپنی بھی اور پانچ منٹ بعد شمشاد کے پیشاب والی جگہ پر سفید پیشا ب بھی کیا ۔ میں یہ باتیں سوچتا مدرسے چلا گیا پر مدرسے میں بھی یہ سب باتیں میرے ذہن میں گھوم رہی تھی مولوی صاحب نے دو بار مجھے ٹوکا کہ زیب کیا بات ہے کہاں گم سم ہو۔ میں نے کہا نہی مولوی صاحب سبق پڑھ رہا ہوں۔ مدرسے کے بعد گھر میں چائے پی کر میں ہوم ورک کے لئے بیٹھ گیا پر ہوم ورک میں بھی دل نہیں لگا بہرحال ہوم ورک مکمل کیا اور کھیل کے میدان چلا گیا ۔ شام کو واپس آکر ابو کے ساتھ گپ شپ میں وہ سب باتیں کچھ حد تک ذہن سے نکل گئی۔ جو دوست گاوں میں رہتے ہیں اُن کو گاوں کے ماحول کا پتہ ہوتا ہے۔ کہ گاوں میں گرمیوں میں سب باہر چارپایاں بچا کر سوتے ہیں۔ ہمارے گھر میں چند ہی لوگ ہیں۔ میں ، میری امی ، میرے ابو ، میرے چھوٹے چاچو ، میرے دادا اور دادی۔ ہم گاوں کے کھاتے پیتے خاندان سے ہیں اس لئے سب کی صحت قابل رشک ہے ۔ ابو کی عمر 28 سال ، امی کی عمر 26 سال کی پر وہ لگتی بیس سال کی ہے۔ دادا اور دادی بھی نہیں لگتے کہ اُن کے اتنے جوان بیٹے ہیں۔ ہم صحن میں دو ٹولیوں میں سوتے ہیں ایک جگہ میں، میری امی اور ابو اور دوسے کونے میں دادا اور دادی جب کہ چاچو اپنے کمرے میں سوتے ہیں۔ بہر حال رات کو سب کو جلدی سونے کی عادت ہوتی ہے اس لئے جو ہی نماز ہوتی ہے سب اپنے چارپائیوں پر چلے جاتے ہیں۔ پر اُس رات جب میں چارپائی پہ آیا تو مجھے پھر ماسٹر جی اور شمشاد کے وہ منظر ذہن میں آنے لگے۔ یہی سوچتے ہوئے شاید رات کے گیارہ بج گئے کہ مجھے ابو کی ہلکی سی آواز آئی کہ وہ امی سے کہہ رہے تھے کہ ساجدہ سو رہی ہو کہ جاگ رہی ہو۔ مجھے خیرت ہوئی کہ امی کی طعبیت تو ٹھیک ہے نہ کہ ابو اُس سے پوچھ رہے ہیں تو امی نے نے اچانک ہلکی سی آواز میں کہا کہ ہاں ذیب کے ابو میں جاگ رہی ہوں پر دیکھو ذیب سویا ہے کہ نہیں۔ تو ابو نے آہستہ سے کہا کہ وہ تو کب کا سو چکا ہے چلو کمرے میں آجاو۔ یہ کہہ کر ابو کمرے کے طرف چلے گئے ، امی تھوڑی دیر بعد میرے چارپائی کی طرف آئی اور تسلی کرلی کہ میں سویا ہوا ہوں تو و ہ بھی کمرے کی طرف چلی گئی۔ میں سوچنے لگا کہ شاید ابو کھانے کی کوئی چیز لائے ہیں جو یہ اب چھپ کر کھائیں گے تو دیکھ لوں کہ کیا کھاتے ہیں۔ میں پانچ منٹ پڑا رہا پھر آہستہ آہستہ اُٹھا اور کمرے کی طرف جانے لگا اندر بلب جل رہا تھا اور میں نے چھپ کے کھڑکی سے دیکھا تو میں بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا ابو نے پورے کپڑے اُتارے تھے اور امی نے بھی۔ اور ابو امی کی پیشاب والی جگہ کو چاٹ رہا تھا۔ مجھے متلی آنے لگی کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ اور امی اپنا سر کبھی ادھر ہلا رہی تھی اور کبھی اُدھر۔ اچانک امی نے ابو سے کہا کہ اب شروع ہو جاو ۔ ابو کھڑے ہو گئے تو مجھے یہ دیکھ کر بہت خیرانگی ہوئی کہ ابو کی پیشاب والی جگہ بہت سخت ہوئی تھے اور بہت بڑی اور موٹی تھی۔ میں نے سوچا کہ میری تو بہت چھوٹی ہے۔ میں نے سوچا کہ اب ابو کیا کرے گا کہ اچانک ابو نے ماسٹر جی کی طرح امی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھی اور اپنا پیشاپ کی جگہ کو امی کی پیشاب کی جگہ رکھا اور پھر بری آسانی سے اندر کردیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ وہ کیوں کر رہا ہے پھر ابو بھی ماسٹر جی کی طرح آگے پیچھے ہونے لگے اور اُس کی پیشاب کی جگہ کبھی اندر جاتی اور کبھی باہر جب بھی اندر جاتی امی کے منہ سے ایک مزے کی کراہ نکلتی پھر ابو امی کے اوپر آئے اور امی کے پستانوں کو چوسنے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ ابو اگے پیچھے بھی ہو رہے تھے ۔ مجھے اچانک پیشاب کی حاجت ہوئی تو میں واش روم کی طرف جانے لگا تو مجھے ابو کے روم کے دوسری طرف ایک سایہ سا نظرآیا جو کہ ابو کے کمرے میں اندر دیکھ رہا تھا۔ مجھے خیرانگی ہوئی کہ یہ سایہ کس کا ہے ۔ میں راہداری سے تھوڑا اگے گیا تو تو چاچو تھے جو کہ کمرے کے اندر دیکھ رہے تھے اُس کی شلوار بھی نیچھے تھی اور وہ اپنے پیشاب کی جگہ تیز تیز مسل رہا تھا۔ کہ اچانک چاچو کی مجھ پر نظر پڑی تو جلدی سے اُس نے اپنی شلوار پہنی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگ گیا۔ مجھے یہ سب بہت عجیب لگ رہا تھا ۔ میں دوبارہ اُسی کھڑکی کی طرف آیا جہاں پہلے کھڑا تھا اب دیکھا تو ابو نیچھے لیٹے تھے اور امی اُس کے اوپر بیٹھی تھی اور اوپر نیچھے ہو رہی تھی۔ یہ سب پانچ منٹ ہوتا رہا کہ ابو نے کہا کہ میں فارغ ہو رہا ہوں تو امی نے کہا کہ میں بھی اور پھر دونوں نے ایک دوسرے کو آپس میں جھکڑ لیا اور شاید دو منٹ بعد دونوں اُٹھنے لگے تو میں جلدی اپنی چارپائی کی طرف آیا اور لیٹ گیا۔ (جاری ہے)
Comments
Post a Comment