سُہانا سفر part 1

دوستو کیسے ہو آپ ؟ میں آپ کے لیئے ایک چھوٹی سی سٹوری لے کر حاضر ہوا ہوں امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی ۔ پڑھنے کے بعد اپنی رائے سے ضرور مطلع کیجئے گا ۔ میں آپ کی آراء کا منتظر رہوں گا۔ تو سٹوری شروع کریں۔۔۔ دوستو ! میرا نام نوشین ہے اور میں شادی شدہ ہوں میرے میاں کی عمر پچاس برس جبکہ میں 43 سال کی ہوں لیکن دیکھنے والے مجھے 26،27 کا ہی سمجھتے ہیں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قدرت نے میرے جسم کی بناوٹ ہی کچھ ایسی بنائی ہے کہ میں اپنی عمر سے بہت کم نظر آتی ہوں اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ میں اپنی ڈایئٹ اور فٹنس کا بہت ذیادہ خیال رکھتی ہوں اسی لیئے میں 43 سال کی ہونے کے باوجود بھی ابھی تک دبلی پتلی اور سِلم سمارٹ سی خاتون ہوں ۔ دوستو ! ویسے تو میں اپنے شوہر سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں لیکن میرے اندر ایک بہت بڑی کمزوری ہے اور وہ یہ کہ میں سیکس کی دیوانی ہوں۔ اور جہاں سیکس کی بات آ جائے تو۔۔۔۔میں ۔۔۔ اپنے خاوند کے ساتھ تھوڑی سی ۔۔۔۔ بے وفائی بھی کر لیتی ہوں ۔۔۔۔ شادی کو 17/18 سال ہو نے کے باوجود بھی میں ابھی تک بچوں کی نعمت سے محروم ہوں ۔۔ہاں ایک اور بات.. دبلی پتلی ہونے کے باوجود بھی میری چھاتیاں اور ہپس میرے باقی جسم کے لحاظ سے خاصی بھاری ہیں جو کہ میرے خیال میں یہ میرا پلس پوائنٹ ہے وہ اس طرح کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ مرد حضرات ایک عورت میں موٹی گانڈ اور بھاری چھاتیوں کو بہت پسند کرتے ہیں ۔۔۔تعارف کے بعد آیئے میں آپ کو اپنی سٹوری سناتی ہوں جو کہ آج سے کچھ عرصہ قبل کا واقعہ ہے۔میں آپ کو بتانا بھول گئی کہ پیچھے سے ہم لوگ حیدر آباد سندھ کے رہنے والے ہیں لیکن جب وہاں کے حالات کچھ زیادہ خراب ہو گئے تو میرے میاں نے وہاں سے اپنا بزنس ختم کیا اور ہم لوگ یہاں لاہور شفٹ ہو گئے چونکہ ہمارے یہاں شفٹ ہونے سے پہلے ہی میاں کے کچھ دوست لاہور میں اپنے قدم جما چکے تھے اس لیئے یہاں آ کر ہمیں کچھ زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور سال دو سال بعد ہی میاں کا بزنس حیدر آباد سے بھی اچھا چلنا شروع ہو گیا۔ ایک دن کی بات ہے کہ جب میرے میاں کام سے واپس گھر آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ کل ہمارے ہاں عزیز صاحب کا بیٹا آ رہا ہے ۔ عزیز صاحب کے بارے میں آپ کو بتاتی چلوں کہ یہ میرے میاں کے ایک بہت اچھے دوست اور حیدر آباد میں ہمارے ہمسائے اور فیملی فرینڈ تھے انیس (میاں) کے ساتھ میرا رشتہ بھی انہی کی وساطت سے طے ہوا تھا اس لیئے ہم دونوں کے دل میں ان کی بڑی عزت تھی عزیز صاحب کی تین بیٹے تھے اس لیئے میں نے تھوڑا کنفیوز ہو گئی اور انیس سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ عزیز صاحب کا کون سا بیٹا آ رہا ہے ؟ تو اس پر وہ کہنے لگے یار تمہارا برخردار اور منہ بولا بیٹا عامر آ رہا ہے عامر عزیز صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا اور مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز تھا کیونکہ میں نے اسے بچپن میں بہت کھلایا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم حیدر آباد سے آئے تھے تو اس وقت وہ بہت چھوٹا تھا ۔ اس لیئے انیس کے منہ سے عامر کا سن کر میں خوش ہو گئی لیکن پھر میں نے انیس سے کہا کہ خیریت تو ہے نا؟ تو وہ کہنے لگے ہاں یار خیریت ہی ہے پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔ کہ اصل میں اس کو پی ایم اے کا کول (پاکستان ملٹری اکیڈمی ) کے لانگ کورس میں دا خلہ مل گیا ہے اس لیئے عزیز بھائی نے میری ڈیوٹی لگائی ہے کہ میں نہ صرف اس کو چھوڑنے ایبٹ آباد جاؤں بلکہ اس کا اپنے دوست حبیب عباسی سے بھی اس کا تعارف کرواں دوں کہ ایمر جنسی میں سو ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ انیس کی یہ بات سن کر میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر تو میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ ایبٹ آباد جاؤں گی تو اس پر وہ کہنے لگے ہاں ہاں ضرور چلو وہاں پر ہم عباسی کے گھر رہیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ علاقہ بھی دیکھ لیں گے پھر کہنے لگے ویسے بھی عباسی نے خاص طور پر تمہیں ساتھ لانے کا کہا تھا ۔ حبیب عباسی انیس کے ایک بہت اچھے کاروباری رفیق اور دوست تھے جو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں جب بھی لاہور کا چکر لگاتے ۔۔۔ تو ہمارے ہاں ہی ٹھہرا کرتے تھے۔ چنانچہ انیس کے ساتھ پروگرم ڈن کر کے میں دل ہی دل میں عامر کا انتظار کرنے لگی۔ عامر کو مخاطب کرتے ہوئے بولے۔۔۔ ۔ کیوں عامر بیٹا۔۔ کچھ گھنٹوں کے لیئے اپنی آنٹی کا بوجھ برداشت کر لو گے؟ انیس صاحب کی بات سن کر عامر کچھ گڑبڑا سا گیا اور بڑی حیرانی سے کہنے لگا۔۔۔۔ وہ انکل ۔۔وہ۔۔۔ تو اس پر انیس ہنس کر بولے ۔۔۔ارے بیٹا تم نے اپنا سارا بچپن آنٹی کی گود میں گزارا ہے آج کچھ گھنٹوں کے لیئے اس کو نہیں اُٹھا سکو گے؟ تو اس پر عامر تھوڑا جھجھک کر کہنے لگا ۔۔۔۔ نو پرابلم انکل ویسے بھی تو دھان پان سی تو آنٹی ہیں اور ان کا تو وزن تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ عامر کی بات سن کر انیس نے میر ی طرف دیکھا اور کہنے لگے ۔۔۔ تو طے ہو گیا بیگم صاحبہ آپ ایبٹ آباد تک کا سفر عامر کی گود میں بیٹھ کر کریں گی اور جہاں بھی عامر تھک گیا تو ہم گاڑی روک کر اسے ریسٹ دے دیں گے ۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اگلی سیٹ پر پڑے ٹی وی کو تھوڑا اوپر اُٹھا یا ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے سے ایک کش اُٹھا کر مجھے دیتے ہوئے بولے اسے عامر کی ٹانگوں پر رکھ کر بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔ انیس کی بات سن کر میں ہکا بکا رہ گئی۔۔۔۔ غصہ تو مجھے بہت آیا۔۔۔۔لیکن صورتِ حال کچھ ایسی تھی کہ میں تماشہ نہیں لگانا چاہتی تھی اس لیئے میں نے ایک نظر عامر کی طرف دیکھا اور پھر اپنا غصہ پی کر ہنستے ہوئے اس سے بولی ۔۔۔۔ کیا خیال ہے بیٹا ۔۔۔ اپنی ٹانگوں پر میرا وزن برداشت کر لو گے ؟اور تھکو گے تو نہیں؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ تو آگے سے وہ جواب دیتے ہوئے بولا ۔۔ شاید آپ کو معلوم نہیں آنٹی کہ میں نے فوج میں جانے کے لیئے بڑی سخت اور کھٹن ورزشیں کیں ہیں اور ان میں ایک وزن اُٹھانا بھی ہے اس لیئے اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میرے لیئے یہ بھی ایک طرح کی ورزش ہی ہو گی اور جہاں تک آپ نے تھکنے کی بات کی ہے تو آپ خود ہی بتائیں آنٹی جی کہ آپ کا وزن ہے ہی کتنا ؟؟ جسے اُٹھا کر میں تھک جاؤں گا ۔۔ عامر کی بات سن کر میری بجائے انیس کہنے لگے ۔ارے اعتراج کیسا ہو گا تم اس کے بچوں جیسے تو ہو۔ پھر بولے اور ویسے بھی تمہاری اماں کے بعد بچپن میں نوشی نے ہی تو تمہیں سنبھالا تھا اس طرح ایک لحاظ سے نوشی تمہاری ماں کے برابر ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔ انیس کی بات سن کر میں نے ان کا دیا ہوا کشن عامر کی رانوں پر رکھا اور پھر اس کی گود میں بیٹھ گئی۔۔تب انیس نے عامر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ بیٹا ہماری 6/7 گھنٹے کی ڈرائیو ہو گی اس لیئے جہاں بھی تم تھکن محسوس کرو ۔۔۔۔۔ مجھے بتا دینا میں گاڑی روک لوں گا اس پر عامر جواب دیتے ہوئے بولا ۔ اوکے انکل اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو میں آپ کو انفارم کر دوں گا ۔ اس کی بات سنتے ہی انیس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ نوشی تمہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہو گی ناں؟ تو میں نے اپنے دل پر جبر کر کے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔ پرابلم کیسی ڈئیر آپ گاڑی چلائیں۔۔۔۔میری بات سن کر انیس نے ہاں میں گردن ہلائی ۔۔۔۔اور پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔۔۔اس طرح ہم لوگ ایبٹ آباد کی طرف چل پڑے۔۔ تھوڑا آگے چل کر میں نے ویسے ہی انیس صاحب سے پوچھا کہ ہمارا روٹ کیا ہو گا؟ تو وہ سامنے دیکھتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔ ہم براستہ موٹر وے چلتے ہوئے براہمہ باہتر انٹر چینج سے اتر کر جی ٹی روڈ لیں گے اور پھر وہاں سے حسن ابدال جو کہ براہمہ سے تھوڑا ہی دور ہے ۔۔۔۔۔اور پھر حسن ابدال سے تھوڑا آگے رائیٹ ٹرن لے کر سیدھا ایبٹ آباد ۔ ۔۔۔۔۔ کچھ آگے چل کر میں نے عامر سے پوچھا کہ تم تنگ تو نہیں ہو رہے تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا ۔۔ یقین کریں آنٹی میں زرا بھی تنگ نہیں ہوں اس کے بعد وہ اپنی پہلے والی بات کو دھراتے ہوئے بولا ۔۔۔ ویسے بھی آپ کا وزن ہی کتنا ہے جو میں تنگ ہوں گا؟ عامر کی بات ختم ہوتے ہی مجھے انیس کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہے تھے ۔۔ نوشی ڈارلنگ درمیان میں ٹی وی ہونے کی وجہ سے مجھے صرف تمہارا سر ہی نظر آ رہا ہے اس لیئے جب تم بھی بیٹھے بیٹھے تھک جاؤ تو پلیز مجھے بتا دینا ۔ میں گاڑی کو روک لوں گا انیس کی بات سن کر میں نے ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تو واقعی ہی راستے میں ٹی وی ہونے کی وجہ سے وہ مجھے نظر نہ آئے۔۔۔۔تا ہم میں اپنی سیٹ سے تھوڑا اوپر اُٹھی اور بمشکل بیک مرمر سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ جی ضرور بتاؤں گی اور پھر نیچے بیٹھ گئی۔ ادھر میرا جواب سنتے ہی انیس کہنے لگے اوکے ڈئیر اب میں گانے لگانے لگا ہوں۔۔۔۔ یہاں میں یہ بات بتا دوں کہ لانگ ڈرائیو پر انیس ہمیشہ اونچی آواز میں گانے لگاتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ اگر اونچی آواز میں گانے نہ لگے ہوں تو ان کو نیند آ جاتی ہے۔ اس لیئے جیسے ہی میری بات ختم ہوئی انیس نے اونچی آواز میں گانے لگا دیئے۔اور ہماری کار بوفر کی دھم دھم سے دھمکنے لگی ۔دوستو جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا تھا کہ اس دن لاہور میں بہت گرمی پڑ رہی تھی اس لیئے عامر نے نیکر کے اوپر آدھے بازؤوں والی شرٹ پہنی ہوئی تھی جبکہ میں نے حسبِ معمول ٹائیٹ قمیض جس کا گلا خاصہ کھلا تھا ۔۔۔۔اور جس کے پیچھے لمبی سی زپ تھی پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔ سفر کا ایک گھنٹہ ایسے ہی گزر گیا۔۔۔ اس دوران ایک دو بار انیس نے سی ڈی پلئیر کی آواز آہستہ کر کے عامر اور مجھ سے گاڑی روکنے کے بارے میں پوچھا بھی۔۔۔ لیکن ہم نے انکار کر دیا۔۔۔۔انیس کے ساتھ ساتھ میں بھی سی ڈی پلئیر پر لگا اپنی پسند کا گانا سن رہی تھی کہ اس دوران مجھے پہلو بدلنے کی حاجت محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے عامر کی ٹانگوں پر بیٹھے بیٹھے اپنی گانڈ کی ایک سائیڈ کا وزن دوسری سائیڈ پر منتقل کیا ۔۔۔۔ تو اس دوران ۔۔۔۔اچانک ہی میری چھٹی حس نے الارم بجانا شروع کر دیا۔۔۔۔پہلے تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اور سچی بات یہ ہے کہ نہ میرا اس طرف دھیان گیا تھا ۔۔۔ لیکن پھر ۔۔۔ کچھ دیر بعد ۔۔ جیسے ہی میں نے دوبارہ سے اپنا پہلو بدلنے کے لیئے اپنی پوزیشن تبدیل کی۔۔۔۔ تو مجھے عامر کی ٹانگوں پر رکھے کشن کے نیچے کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی اور۔۔۔پہلو بدلتے وقت واضع طور پر مجھے کشن کے نیچے کسی چیز کی چبھن کا احساس ہوا۔۔۔ اپنے اس احساس کی کنفرمیشن کے لیئے میں نے تھوڑی ہی دیر بعد پہلو بدلنے کے بہانے کشن پر تھوڑی گانڈ رگڑی تو ۔۔۔اس میں شک و شبہہ کی کوئی گنجائیش ہی نہ رہی کہ کشن کے نیچے عامر کا لن کسی کھمبے کی طرح اکڑا کھڑا تھا ۔۔یہ محسوس کرتے ہی میرے سارے جسم میں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔۔۔۔ ۔۔۔اور پھر اس کے بعد میری تمام حسیات عامر کی ٹانگوں کے درمیان ہونے والی ہلچل کی طرف منتقل ہو گئیں۔۔۔اور تھوڑا غور کرنے پر مجھے محسوس ہوا کہ عامر کافی دیر سے سانس روکے بیٹھا تھا ۔۔۔ (غالباً وہ اپنے لن کو بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا) لیکن میرے خیال میں وہ ایسا کر نہیں پا رہا تھا اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں اس کی گود میں بیٹھی تھی اوپر سے اس نے شارٹ نیکر پہنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے گھٹنوں سے نیچے اس کی ٹانگیں ننگی تھیں اور جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے میری ٹانگیں اس کی ٹانگوں کے ساتھ جُڑی ہوئی تھیں۔۔ اور کار کے جھٹکے میری بڑی سی گانڈ (جو کہ انیس صاحب کے دیئے ہوئے چھوٹے سے کشن پر پوری نہیں آ رہی تھی) کا کچھ حصہ اس کی رانوں پر ٹچ ہو رہا تھا اور میرے خیال میں جیسے ہی میں کسی موڑ یا جھٹکے کی وجہ سے دائیں بائیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کے ساتھ ہی میری نرم گانڈ اس کی رانوں سے رگڑ کھاتی تھی تو ۔۔۔۔ ایسے میں ایک نئے نئے جوان ہونے والے لڑکے کے لن کا تن جانا ۔۔۔۔۔ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ اور یہ سب سوچ سوچ کر میں حیران ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑی پریشان بھی ہو رہی تھی۔۔کہ اس حادثے کا کہیں انیس کو نہ پتہ چل جائے۔۔۔۔۔ دوستو! میں سچ کہہ رہی ہوں کہ عامر کی گود میں بیٹھتے وقت میرے زہن کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی یہ خیال ہر گز نہ آیا تھا کہ میرے اس طرح عامر کی گود میں بیٹھنے کی وجہ سے اس کا لن کھڑا ہو جائے گا۔۔۔ بلکہ اپنے حساب سے تو میں اسے ابھی بچہ ہی سمجھ رہی تھی ایسا بچہ کہ جس کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے۔۔۔پھر اچانک یہ سوچ کر میں مزید پریشان ہو گئی کہ پتہ نہیں اس وقت وہ اپنی ماں کی بیسٹ فرینڈ کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا؟ ۔۔جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا ہے کہ میں ابھی تک عامر کو ایک بچہ ہی ٹریٹ کر رہی تھی ۔اس کے بعد ایسے ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ آیا اس کل کے ا بچے کو یہ اندازہ ہے کہ مجھے اس کی ٹانگوں کے بیچ ہونے والی ہارڈنس معلوم ہو گئی ہے؟؟ پھر یہ سوچا کہ اگر کسی طرح اس کو یہ پتہ چل گیا کہ اس کے لن کھڑے ہونے کا مجھے معلوم ہے تو؟؟؟؟؟؟؟ میرے خیال میں اسے اس بات کا کچھ کچھ اندازہ تھا ۔۔ اسی لیئے تو وہ کافی دیر سے اپنا سانس روکے، چپ کر کے بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔ تا کہ اس طرح وہ اپنے کھڑے لن کو بٹھا سکے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ ایسا نہ کر سکا ۔۔ کیوں؟۔۔۔ دل میں یہ بھی سوچ آئی کہ ۔۔۔اپنی ماں جیسی آنٹی پر اس کی یہ ہارڈنس؟؟؟ اس سوچ کے آتے ہی ۔۔۔۔۔ مجھے دوسرا خیال یہ بھی آیا کہ اس عمر کے لڑکے میں آنے والی ہوشیاری بھلا کب یہ سوچتی ہے کہ اسے کس پر آنا ہے اور کس کو دیکھ کر بیٹھ جانا ہے ۔۔ بلکہ اس عمر میں تو عام طور پر ہر لن کو ایک ایسی موری کی تلاش ہوتی ہے کہ جس میں گھس کر وہ ٹھنڈا ہو سکے۔۔۔۔۔ ۔۔اس کے ساتھ ہی جب میں نے اپنی حالت پر غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ اس وقت میں نے بڑی پتلی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔جس میں سے میری کالے رنگ کی برا صاف نظر آ رہی ہے۔۔ ۔۔۔اور جیسے ہی کار کو جھٹکا لگتا میری کمر اس کی چھاتی کے ساتھ چپک جاتی ۔۔۔۔۔جبکہ میری ٹانگیں پہلے ہی اس کی ٹانگوں کے ساتھ جڑی ہوئیں تھی اور ہر جھٹکے کے وقت میری ُبنڈ کے دونوں کونے اس کی جوان رانوں سے مس ہو رہے تھے ۔۔۔۔ اور میرے خیال میں یہی وجہ تھی کہ اس کا لن بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔ اس وقت ہمیں سفر کرتے ہوئے ابھی ایک ہی گھنٹہ گزرا تھا جبکہ 5/ 6 گھنٹوں کی ڈرائیو ابھی باقی تھی ۔۔مجھے اس بات کا بھی اچھی طرح سے ادراک تھا کہ گاڑی چلاتے ہوئے میرے خاوند کو پچھلی سیٹ پر ہونے والی اس سرگرمی کا قطعی طور پر کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے عین پیچھے کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ اگلی سیٹ پر ترچھے پڑے ہوئے ٹی وی نے پچھلی سیٹ کی ہر چیز کو ان کی نظروں سے اوجھل کر دیا تھا ۔۔۔ اس لیئے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہم جو بھی کریں ۔۔۔۔۔ انیس کو کچھ نظر نہیں آنا تھا ۔۔۔۔۔ میرے دماغ میں یہ سوچ آنے کی دیر تھی کہ ۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں مجھے کچھ کچھ ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ایک دفعہ پھر میرا دھیان عامر کے کھڑے لن کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔ گاڑی چلاتا ہوا میرا خاوند میر انیس قاضی۔۔۔۔ اپنے دوست کے بیٹے کی اس "اکڑاہٹ" سے بے خبر تھا جو کہ اس کی بیگم کی وجہ سے وجود میں آئی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ یہ سوچتے ہی ۔۔۔ جانے کیوں خود بخود ہی ۔۔۔۔ میرے اندر سرور کی مست لہریں دوڑنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ اور پھر یہ سوچ کر کہ میری گانڈ کے عین نیچے عامر کا لن تنا ہوا کھڑا ہے۔۔۔ میرے سارے بدن میں ۔۔ شہوت سی بھر گئی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے اندر کی سیکسی عورت ۔۔۔۔میں سیکس کی آگ تیزی کے ساتھ بھرنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔اور پھر میرے من میں یہ خواہش شدت سے سر اُٹھانے لگی کہ عامر یوں چپ کر کے نہ بیٹھے بلکہ ۔۔۔تھوڑا آگے بڑھے۔۔۔۔ ۔میرے ساتھ کچھ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس بے چارے کی تو ساری توجہ اپنے لن کو نیچے بٹھانے پر مرکوز تھی۔۔۔ اس لیئے موقعے سے فائدہ اُٹھانے کے لیئے ۔۔۔۔۔ جو بھی کرنا تھا مجھے ہی کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں نے اپنی گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا تو عامر کے ماتھے پر پسینہ چمک رہا تھا اور وہ اپنے دونوں ہاتھ سیٹ پر رکھے تھوڑا مضطرب بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے انجان بنتے ہوئے اس سے کہا کہ۔۔۔۔ کیا بات ہے عامر گاڑی میں اے سی چلنے کے باوجود بھی تمہارے ماتھے پر پسینہ کیوں چمک رہا ہے؟؟ ۔۔۔۔ تم ٹھیک تو ہو نا؟ ؟ میری بات سن کر عامر چونک گیا اور ایک دم سے اس کا چہرہ ایسے سرخ ہو گیا کہ جیسے میں نے اس کی چوری پکڑ لی ہو۔۔۔۔ اور وہ ہکلاتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ۔۔نہ نہیں۔۔۔ ۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں آنٹی ۔۔۔۔تو میں نے اس سے کہا ہو سکتا ہے تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔۔ لیکن مجھے تم کچھ اَن ایزی لگ رہے ہو میری اس بات پر اسے اور تو کچھ نہ سوجھا۔۔۔۔۔جلدی سے بولا۔۔۔۔ ۔۔۔ دراصل آنٹی میں نے کافی دیر سے اپنے دونوں ہاتھ سیٹ کے اوپر رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ شاید اسی وجہ سے میں اپنے آپ کو کچھ اَن ایزی محسوس کر رہا ہوں اس کی بات سن کر ۔۔۔ اچانک ہی میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے ایک نظر پیچھے کی طرف دیکھا اور اس سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ چندا اگر تم سیٹ پر پڑے اپنے ہاتھوں کو اَن ایزی محسوس کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ا نہیں یہاں رکھ لو ۔۔۔یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ ا اور انہیں جان بوجھ کر اپنی ریشمی رانوں پر رکھ دیا اور اس سے بولی ۔۔ میرے خیال میں یہاں پر ٹھیک رہیں گے ؟ تو وہ دھیرے سے جواب دیتے ہوئے بولا جی آنٹی۔۔۔ یہاں پر میں یہ بات واضع کر دوں کہ اس کے دونوں ہاتھو ں کو اپنی ریشمی رانوں پر رکھتے ہوئے میں نے جان بوجھ کر اس کی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں کے اندر تک لے گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اتفاق سے اس کی ایک ہتھیلی میری ران کے اس قدر ۔۔۔۔۔اندر تک چلی گئی تھی کہ جس کی وجہ سے اس کا انگھوٹھا ۔۔۔۔ میری ران کے آگے پرائیویٹ حصے سے تھوڑا ہی دور رہ گیا تھا ۔ ۔۔۔اتنا دور کہ ۔۔۔وہاں سے میری موسٹ پرائیوٹ جگہ۔۔۔ چند سینٹی میٹر کے فاصلے پر واقعہ تھی ۔۔۔۔ اور اس کے انگھوٹھے کا میری موسٹ پرائیوٹ جگہ سے چند سینٹی میٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے میرے اندر ایک ہیجان پیدا ہو گیا تھا۔۔۔۔ اور اس وقت میرا جی چاہ رہا تھا کہ ۔۔۔ کاش عامر اپنے انگھوٹھے کو رینگتے ہوئے تھوڑا ۔۔۔۔۔اور آگے کی طرف لے جائے۔۔۔اتنا آگے کہ جہاں سے میری موسٹ پرائیویٹ جگہ کے در و دیوار شروع ہوتے ہیں ۔۔۔۔لیکن مجھے معلوم تھا عامر اتنی ہمت نہ کر سکے گا۔۔۔ ۔۔۔۔ اس لیئے پہلے تو میں نے چند سیکنڈ تک اس کے ردِ عمل کا انتظار کیا کہ شاید ۔۔۔۔ لیکن جب اس نے ایسا کچھ نہ کیا ۔۔۔۔۔تو پھر میں نے خود ہی کچھ کرنے کی ٹھان لی ۔۔۔ اور بظاہر بے دھیانی میں اپنا ہاتھ اس کے اُس ہاتھ پر رکھا کہ جس کا فاصلہ میری موسٹ پرائیویٹ جگہ سے بہت کم تھا ۔۔۔۔۔۔ اور کن اکھیوں سے اس کے ردِ عمل کا جائزہ لینے لگی۔۔۔لیکن جب اس نے اپنے ہاتھ پر رکھے میرے ہاتھ کو ہٹانے کی کوئی کوشش نہ کی تو ۔۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے میں نے اس کے ہاتھ پر رکھے اپنے ہاتھ سے ۔۔۔۔۔ ۔ اس کے ہاتھ پر مساج کرنا شروع کر دیا۔۔جیسے ہی میں نے اس کے ہاتھ پر مساج کرنا شروع کیا تو ۔۔۔ میرے ہاتھ کا لمس پا کر میرے نیچے بیٹھا ہوا عامر ۔۔۔۔۔ تھوڑا سا کسمسایا لیکن بولا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر ۔۔ میں نے اپنی شہوت کے زیرِ اثر اس کے ہاتھ کو تھپکنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ میں اس کے ہاتھ کو بلکل ایسے ہی تھپک رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ کہ جیسے ایک ماں اپنے نوزائیدہ بچے کو سلانے کے لیئے اس کے سر پر تھپکا دیتی ہے لیکن اس ماں کی فیلنگ کے برعکس اس وقت میرے زہن میں عامر کے لیئے صرف اور صرف۔۔۔۔ شہوت ہی پوشیدہ تھی۔۔۔سوری میں آپ کو ایک اور بات بتانا تو بھول ہی گئی تھی ۔۔۔۔۔اور وہ یہ کہ جس وقت میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تھا تو اس وقت عامر کا ہاتھ بری طرح کانپ رہا تھا اور جیسے جیسے۔۔۔ میں اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ کو تھپکی دے رہی تھی ۔۔۔۔ ویسے ویسے میرے اندر شہوت کی آگ بڑھتی جا رہی تھی اسی لیئے کبھی تو میں اس کے ہاتھ کو تھپکتی اور کبھی اس پر مساج کرنا شروع کر دیتی ۔۔۔ اس کے ہاتھ پر مساج کرتے کرتے ۔۔۔ پلان کے مطابق میں نے ایک قدم اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور &nb part 1

Comments

Popular posts from this blog

کُھلی زپ urdu sexy story

ہادیہ کی چدائی

Urdu Sex Story 2017