ایک نمبر کے حرامی بوڑھے
واقعات ایسی ہوتی ہیں جس میں آدمی كھود بہ خود كھچتا چلا جاتا ہے. چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے. آدمی کتنا بھی سمجھدار ہو لیکن کبھی کبھی اس کی سمجھداری اسے لے ڈوبتي ہے. ایسی ہی ایک واقعہ میرے ساتھ ہوئی تھی. جسے آج تک میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے. آج میں یہی بات آپ سے شیئر کرتی ہوں.
میں رتكا، میرے شوہر کا نام ہے روہن، عمر 32 سال، ممبئی کے ولے پارلے میں رہتی ہوں. میرے شوہر ایک الیکٹرانکس کمپنی میں کام کرتے ہیں. میں بھی ایک چھوٹی سی سپھٹوےر کمپنی میں کام کرتی ہوں. یہ بات کافی سال پہلے کی ہے، تب ہم شہر سے دور ملاڈ کے پاس ایک فلیٹ میں رہتے تھے. ہماری شادی اسی فلیٹ میں ہوئی تھی. مييا بیوی اکیلے ہی اس فلیٹ میں رہتے تھے. اس فلیٹ میں ہم سے اوپر ایک خاندان رہتا تھا. اس خاندان میں ایک جوان كپل تھے نام تھا خواب اور ديپاكر. ان کوئی بچہ نہیں تھا. ساتھ میں ان کے سسر جی بھی رہتے تھے. ان کی عمر کوئی 60 سال کے آس پاس تھی ان کا نام کیلاش شرما تھا میں خواب سے بہت جلد کافی گھل مل گئی. اکثر وہ ہمارے گھر آتی یا میں اس کے گھر چلی جاتی تھی. میں اکثر گھر میں سکرٹ اور ٹی شرٹ میں رہتی تھی. میں سکرٹ کے نیچ چھوٹی سی ایک ككشي پہنتی تھی. مگر ٹی شرٹ کے نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی. اس سے میرے بڑے بڑے بوبس ہلکی حرکت سے بھی اچھل اچھل جاتے تھے. میرے نپلس ٹی شرٹ کے باہر ہی ساپھ ساپھ نظر آتے تھے.
خواب کے سسر کا نام میں جانتی تھی. انہیں بس شرما انکل کہتی تھی. میں نے محسوس کیا شرما انکل مجھ میں کچھ زیادہ ہی اٹےرےسٹ لیتے تھے. جب بھی میں ان کے سامنے ہوتی ان کی نظریں میرے بدن پر پھرتی رہتی تھی. مجھے ان پر بہت غصہ آتا تھا. میں ان کی بہو کی عمر کی تھی مگر پھر بھی وہ مجھ پر گندی نیت رکھتے تھے. لیکن ان کا هسمكھ اور لاپرواہ سوابھاو آہستہ آہستہ مجھ پر اثر کرنے لگا. دھیرے دھیرے میں ان کی نظروں سے واقف ہوتی گئی. اب ان کا میرے بدن کو گھورنا اچھا لگنے لگا. میں ان کی نظروں کو اپنی چوچیو پر یا اپنے سکرٹ کے نیچے سے جھاكتي ننگے ٹانگوں پر پا کر مسکرا دیتی تھی
خواب تھوڑی سست قسم کی تھی اس لئے کہیں سے کچھ بھی مگوانا ہو تو اکثر اپنے سسر جی کو ہی بھیجتی تھی. میرے گھر بھی اکثر اس کے سسر جی ہی آتے تھے. وہ ہمیشہ میرے سنگ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش میں رہتے تھے. ان کی نذرے ہمیشہ میری ٹی شرٹ کے گلے سے جھانکتے بوبس پر رہتی تھی. میں پهناوے کے معاملے میں تھوڑا بےفكر ہی رہتی تھی. اب جب خدا نے اتنا سیکسی جسم دیا ہے تو تھوڑا بہت اےكسپوذ کرنے میں کیا ہرز ہے. وہ مجھے اکثر چھنے کی بھی کوشش کرتے تھے لیکن میں انہیں زیادہ لفٹ نہیں دیتی تھی.
اب اصل واقعہ پر آیا جائے. اچانک خبر آئی کہ ممی کی طبیعت خراب ہے. میں اپنے مایکے اندؤر چلی آئی. ان دنو موبائل نہیں تھا اور ٹیلیفون بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتے تھے. کچھ دن رہ کر میں واپس ممبئی آ گی. میں نے روہن کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی تھی کیونکہ ہمارے گھر میں ٹیلیفون نہی تھا. میں شام کو اپنے فلیٹ میں پہنچی تو پایا کی دروازے پر تالا لگا ہوا ہے. وہیں دروازے کے باہر اسی طرح رکھ کر روہن کا انتظار کرنے لگی. روہن شام 8 بجے تک گھر آ جاتا تھا. لیکن جب 9 ہو گئے تو مجھے فکر ستانے لگی. فلیٹ میں زیادہ کسی سے جان پہچان نہیں تھی. میں نے خواب سے پوچھنے کا خیال کیا. میں نے اوپر جا کر خواب کے گھر کی كالبےل بجائی. اندر سے ٹی وی چلنے کی آواز آ رہی تھی. کچھ دیر بعد دروازہ کھلا. مینے دیکھا سامنے شرما جی کھڑے ہیں.
"ہیلو ... وہ خواب ہے کیا؟" میں نے پوچھا.
"خواب تو ديپاكر کے ساتھ ہفتے بھر کے لئے گوا گئی ہے گھومنے. ویسے تم کب آئی؟"
"جی ابھی کچھ دیر پہلے. گھر پر تالا لگا ہے روہن ...؟"
"روہن تو گجرات گیا ہے اپھيشيل کام سے کل تک آئے گا." انہوں نے مجھے مسکرا کر دےكھا- "تمہے بتایا نہی"
"نہی انکل ان سے میری کوئی بات ہی نہیں ہوئی. ویسے میری پلاننگ کچھ دنو بعد آنے کی تھی."
"تم اندر تو آو" انہوں نے کہا میں نے کشمکش سی اپنی جگہ پر کھڑی رہی.
"خواب نہیں ہے تو کیا ہوا میں تو ہوں. تم اندر تو آو." کہہ کر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچا. میں کمرے میں آ گئی. انہوں نے آگے بڑھ کر دروازے کو بند کر کے کنڈی لگا دی. میں نے جھجھکتے ہوئے ڈريگ روم میں قدم رکھا. جیسے ہی سینٹر ٹیبل پر نظر پڑی میں تھم گئی. سینٹر ٹیبل پر بیئر کی بٹلس رکھی ہوئی تھی. آس پاس سنكس بکھرے پڑے تھے. ایک سنگل سوفی پر كامدار انکل بیٹھے ہوئے تھے. ان کے ایک ہاتھ میں بیئر کا گلاس تھا. جس سے وہ ہلکی ہلکی چسكيا لے رہے تھے. میں اس ماحول کو دیکھ کر چونک گئی. شرما انکل نے میری جھجھک کو سمجھا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"ارے گھبرانے کی کیا بات ہے. آج اڈيا- پاکستان میچ چل رہا ہے نا. سو ہم دونو کو میچ کو ایںجاے کر رہے تھے." میں نے سامنے دیکھا ٹی وی پر انڈیا پاکستان کا میچ چل رہا تھا. میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا کیا کرنا مناسب ہوگا. یہاں ان کے درمیان بیٹھنا یا کسی هوٹےل میں جا کر ٹھہرنا. گھر کے دروازے پر اٹرلك تھا اس لئے توڈا بھی نہیں جا سکتا تھا. میں وہیں سوفی پر بیٹھ گئی. مینے سوچا میرے علاوہ دونوں آدمی بزرگ ہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے. لیکن رات بھر رکنے کی بات جہاں آتی ہے تو ایک بار سوچنا ہی پڑتا ہے. میں انہی خیالات میں گمسم بیٹھی تھی لیکن انہوں نے گویا میرے من میں چل رہے اتھل پتھل کو بھاپ لیا تھا.
"کیا سوچ رہی ہو؟ کہیں اور رکنے سے اچھا ہے رات کو تم یہیں رک جاؤ. تم خواب اور ديپاكر کے بیڈ روم میں رک جانا میں اپنے کمرے میں سو جانگا. بھائی میں تمہیں کاٹ نہیں لوں گا. اب تو بوڑھا ہو گیا ہوں. هاهاها .. "
ان کے اس طرح بولنے سے ماحول تھوڑا ہلکا ہوا. میں نے بھی سوچا کہ میں بے وجہ ایک بزرگ آدمی پر شک کر رہی ہوں. میں ان کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنے لگی. پاکستان بیٹنگ کر رہی تھی. کھیل کافی کانٹے کا تھا اس لئے مہم جوئی مکمل تھا. مینے دیکھا دونو درمیان درمیان میں كنكھيو سے سکرٹ سے باہر جھاكتي میری گوری ٹانگوں کو اور ٹی شرٹ سے ابھرے ہوئے میرے بوبس پر نظر ڈال رہے تھے. پہلے پہلے مجھے کچھ شرم آئی لیکن پھر مینے اس طرف غور کرنا چھوڑ دیا. میں سامنے ٹی وی پر چل رہے کھیل کا مزا لے رہی تھی. جیسے ہی کوئی آؤٹ ہوتا ہم سب خوشی سے اچھل پڑتے اور ہر شاٹ پر گلیاں دینے لگتے. یہ سب انڈیا پاکستان میچ کا ایک كامن سین رہتا ہے. ہر بال کے ساتھ لگتا ہے سارے ہندوستانی کھیل رہے ہوں.
کچھ دیر بعد شرما اںکل نے پوچھا، "رتكا تم کچھ لوگي؟ بیئر یا جن ...؟"
میں نے نا میں سر ہلایا لیکن بار بار رکویسٹ کرنے پر میں نے کہا، "بیئر چل جائے گی .."
انہوں نے ایک کی بوتل اوپن کر کے میرے لئے بھی ایک گلاس بھرا پھر ہم "چیرس" بول کر اپنے اپنے گلاس سے شکتی کرنے لگے.
شرما اںکل نے دیوار پر لگی گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا "اب کچھ کھانے پینے کا انتظام کیا جائے" -نهونے میرے چہرے پر نگاہ گڑھاتے ہوئے کہا "تم نے شام کو کچھ کھایا یا نہیں؟"
میں ان کے اس سوال پر هڑبڑا گيي- "ہاں میں نے کھا لیا تھا."
"تم جب جھوٹ بولتا ہو تو بہت اچھی لگتی ہو. پاس کے هوٹےل سے تین کھانے کا آرڈر دے دے اور بول کہ جلدی بھیج دے گا" كدر اںکل نے فون کر کے. کھانا منگوا لیا.
ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس بھرتے گئے اور میں انہیں شکتی کر کر کے ختم کرتی گئی. آہستہ آہستہ بیئر کا نشہ نظر آنے لگا. میں بھی ان کے ساتھ ہی چیخ چیخ رہی تھی، تالیاں بجا رہی تھی.
کچھ دیر بعد کھانا آ گیا. ہم نے اٹھ کر کھانا کھایا پھر واپس آ کر سوپھے پر بیٹھ گئے. شرما انکل اور كامدار انکل اب بڑے والے سوفی پر بیٹھے. وہ سوفی ٹی وی کے ٹھیک سامنے رکھا ہوا تھا. میں دوسرے سوفی پر بیٹھنے لگی تو شرما اںکل نے مجھے روک دیا: ''
"ارے وہاں کیوں بیٹھ رہی ہو. یہیں پر آجا یہاں سے اچھا نظر آئے گا. دونوں سوفی کے دونو کناروں پر سرک کر میرے لئے درمیان میں جگہ بنا دئے. میں دونو کے درمیان آ کر بیٹھ گئی. پھر ہم میچ دیکھنے لگے. وو دونو واپس بیئر لینے لگے. میں نے صرف ان کا ساتھ دے رہی تھی. باتوں باتوں میں آج میں نے زیادہ لے لیا تھا اس لئے اب میں کنٹرول کر رہی تھی جس سے کہیں بہک نہ جاؤ. آپ سب تو جانتے ہی ہوں گے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ ہو تو کیسا ماحول رہتا ہے. شارجہ کے میدان میں میچ ہو رہا تھا. انڈین کیپٹن تھا اذهرددين.
"آج اڈينس جیتنا ہی نہیں چاہتے ہیں." شرما جی نے کہا
"یہ ایسے کھیل رہے ہیں جیسے پہلے سے سٹے بازی کر رکھی ہو." كدر اںکل نے کہا.
"آپ لوگ اس طرح کیوں بول رہے ہیں؟ دیکھنا انڈیا جیتے گی." مینے کہا
"ہو ہی نہیں سکتا. شرط لگا لو انڈیا ہار کر رہے گی" شرما اںکل نے کہا.
تبھی ایک اور چھکا لگا. "دیکھا ... دیکھا ...." شرما اںکل نے میری پیٹھ پر ایک ہلکے سے صلواتیں جمایا "میری بات مانو یہ سب ملے ہوئے ہیں."
کھیل آگے بڑھنے لگا. تبھی ایک وکٹ گرا تو ہم تینو اچھل پڑے. میں خوشی سے شرما انکل کی جاںگھ پر ایک زور کی تھپكي دے کر بولی "دیکھا انکل؟ آج ان کو کوئی نہیں بچا سکتا. ان سے یہ اسکور بن ہی نہیں سکتا." میں اس کے بعد واپس کھیل دیکھنے میں بزی ہو گئی. میں بھول گئی تھی کہ میرا ہاتھ اب بھی شرما انکل کی رانوں پر ہی پڑا ہوا ہے. شرما انکل کی نگاہیں بار بار میری ہتھیلی پر پڑ رہی تھی. انہوں نے سوچا شاید میں جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہوں. انہوں نے بھی بات کرتے کرتے اپنا ایک ہاتھ میرا سکرٹ جہاں ختم ہو رہا تھا وہاں پر میری ننگی ٹانگ پر رکھ دیا. مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ ان کی رانوں پر سے ہٹا دیا. ان کا ہاتھ میری ٹانگوں پر رکھا ہوا تھا. كدار انکل نے میرے کندھے پر اپنے بازو رکھ دی. مجھے بھی کچھ کچھ مزا آنے لگا.
اب لاسٹ تین اوور باقی تھے. کھیل کافی ٹکر کا ہو گیا تھا. ایک طرف جاوید میانداد کھیل رہا تھا. لیکن اسے بھی جیسے انڈین بولرس نے باندھ کر رکھ دیا. کھیل کے ہر بال کے ساتھ ہم اچھل پڑتے. یا تو سکھ مناتے یا بے بسی میں سانس چھوڑتے. اچھل کود میں کئی بار ان کی كوهنيا میرے بوبس سے ٹکرائی. پہلے تو میں نے سوچا شاید غلطی سے ان کی کہنی میرے بوبس کو چھو گئی ہوگی لیکن جب یہ غلطی بار بار ہونے لگی تو ان کے غلط ارادے کی بھنک لگی.
آخری اوور آ گیا اظہر نے بال ذی شرما کو پكڑاي.
"اس کو لاسٹ اوور کافی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا سامنے جاوید میانداد کھیل رہا ہے."
"ارے انکل دیکھنا یہ جاوید میانداد کی حالت کیسے خراب کرتا ہے." مینے کہا
"نہی جیت سکتی انڈیا کی ٹیم نہیں جیت سکتی لکھ کے لیلو مجھ آج پاکستان کے جیتنے پر میں شرط لگا سکتا ہوں." شرما اںکل نے کہا.
"اور میں بھی شرط لگا سکتا ہوں کی انڈیا ہی جیتے گی" مینے کہا. آخری دو بال بچنے تھے کھیل مکمل طور پر انڈیا کے پھےور میں چلا گیا تھا.
"جاوید میانداد کچھ بھی کر سکتا ہے. کچھ بھی. اسے آؤٹ نہیں کر سکے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے." شرما انکل نے پھر جوش میں کہا.
"اب تو جاوید میانداد تو کیا اس کے فرشتے بھی آ جائیں نا تو بھی ان کو ہارنے سے نہیں بچا سکتے."
"چلو شرط ہو جائے." شرما اںکل نے کہا.
"ہاں ہاں ہو جائے .." كدر اںکل نے بھی ان کا ساتھ دیا. میں نے پیچھے ہٹنے کو اپنی ہار مانی اور ویسے بھی انڈیا کی جیت تو پکی تھی. لاسٹ بال بچا تھا اور جیتنے کے لئے پانچ رنز چاہئے تھے. اگر ایک چوکا بھی لگتا تو دونوں ٹیم ٹائی پر ہوتے. جیت تو صرف ایک سکس ہی دلا سکتی تھی جو کہ اتنے ٹےنس مومےٹ میں ناممکن تھا.
"بولو اب بھگوگے تو نہیں. آخری بال اور پانچ رنز. چار رن بھی ہو گئے تو دونوں برابر ہی رہیں گے. جیتنے کے لئے تو صرف چھکا چاہئے." میں نے فخر سے گردن اکڑا کر شرما جی کی طرف دیکھا. شرما اںکل نے اپنے کندھے اچكاي کہا کچھ نہیں. ان کو بھی لگ گیا تھا کہ آج انڈیا ہی جیتے گی. پھيلڈرس سارے باڈري پر لگا دئے گئے تھے. میں نے ان سے پوچھا
"سوچ لو .... اب شرط لگاوگے کیا. 99٪ تو انڈیا جیت ہی چکی ہے."
"شرط تو ہم کریں گے ہی. دیکھنا جاوید میانداد بیٹنگ کر رہا ہے. وہ پوری جان لگا دے گا." شرما اںکل نے اپنی ہاتھ سے پھسلتي ہوئی هےكڑي کو واپس بٹورتے ہوئے کہا.
"ٹھیک ہے ہو جائے شرط." کہ کر میں نے اپنے ایک ہاتھ شرما انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ كدر انکل کے ہاتھ میں دیا.
"اگر انڈیا جیتی تو ..................؟" شرما اںکل نے بات میرے لئے ادھوری چھوڑ دی.
"تو آپ دونوں مختلف مجھے ٹریٹ دیں گے. ساتھ میں ہم لوگوں کی پھیملی بھی رہے گی. مكڈونلڈس میں شامل. منظور؟" میں نے ان سے کہا. دونو نے تپاک سے حامی بھر دی.
"اور اگر پاکستان جیت گئی تو ... ...؟" - كدر انکل نے بھی شرط میں شامل ہوتے ہوئے کہا.
"تو رتكا وہی کرے گی جو ہم دونو کہیں گے. منظور ہے؟" شرما انکل نے کہا
"کیا کرنا پڑے گا؟" میں نے ہنستے ہوئے پوچھا. میں سوچ بھی نہیں پا رہی تھی کہ میں کس طرح ان دونوں بوڈھو کے چنگل میں پھستي جا رہی ہوں.
"کچھ بھی جو ہمیں پسند ہو گا." كدر نے کہا.
"ارے كدر چھوڑ شرط-ورت یہ لگا نہیں سکتی." شرما اںکل نے کہا.
"ٹھیک ہے ہو جائے شرط." کہ کر میں نے اپنا ایک ہاتھ شرما انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ كدر انکل کے ہاتھ میں دیا. دونوں نے اپنے ہاتھ میں میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا. دونوں میرے بدن سے سٹ گئے. میں دونو کے درمیان سڈوچ بنی ہوئی تھی. ایسے ماحول میں چیتن شرما نے دوڑنا شروع کیا. کمرے میں ماحول گرم ہو گیا تھا. کچھ تو میچ کے مہم جوئی سے اور کچھ ہمارے بدن کے ایک دوسرے سے سٹنے سے. چیتن شرما دوڑتا ہوا آیا اور اس پتہ نہیں کیوں ایک پھلٹوس گیند جاوید میانداد کو پھینکی. ہماری سانسیں تھم گئی تھی. جاوید میانداد نے آخری بال کے پیچھے آتے ہوئے اپنے بیٹ کو لفٹ کیا اور بال تیزی سے نیچے آتی ہوئی بیٹ سے ٹکرائی. سب ایسا لگ رہا تھا جیسے سلو موشن میں چل رہا ہو. بال بیٹ سے لگ کر آسمان میں اچھلي اور لاکھوں کروڑوں ناظرین صرف سانس روکے دیکھتے ہی رہ گئے. بال بغیر ڈراپ کے باڈري کے باہر جا کر گری. اپاير نے چھکے کا اشارہ کیا اور پاکستان جیت گئی. مجھے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ سب کیا چل رہا ہے. میں نے صرف منہ پھاڈے ٹی وی کی طرف دیکھ رہی تھی. یقین تو میرے ساتھ بیٹھے دونوں بزرگوں کو بھی نہیں ہو رہا تھا کہ ایسے پوزشن سے انڈیا ہار بھی سکتی ہے. کچھ دیر تک اسی طرح رہنے کے بعد دونوں چللا اٹھے،
"هررراه .... ہم جیت گئے." میں نے مایوسی کے ساتھ دونوں کی طرف دیکھا.
"ہم جیت گئے." میں ان کی طرف دیکھ کر ایک اداس سی مسکراہٹ دی "اب تم ہماری شرط پوری کرو." شرما جی نے کہا.
"ٹھیک ہے بولو کیا کرنا ہے." میں نے ان سے کہا.
"سوچ لو پھر سے بعد میں اپنے وعدے سے مکر مت جانا." شرما اںکل نے کہا.
"نہی میں نہیں مكروگي اپنے وعدے سے. بولو مجھے کیا کرنا پڑے گا." شرما جی نے مسکراتے ہوئے كدر انکل کی طرف دیکھا. دونو کی آنکھیں ملی اور سوادو کا کچھ تبادلہ ہوا.
"تو بول كدر ....... اسے کیا کرنے کو کہا جائے." شرما اںکل نے كدر انکل سے کہا.
"نہی تو نے شرط عائد ہے شرما تو ہی اس کے ثواب کا اعلان کر."
میں رتكا، میرے شوہر کا نام ہے روہن، عمر 32 سال، ممبئی کے ولے پارلے میں رہتی ہوں. میرے شوہر ایک الیکٹرانکس کمپنی میں کام کرتے ہیں. میں بھی ایک چھوٹی سی سپھٹوےر کمپنی میں کام کرتی ہوں. یہ بات کافی سال پہلے کی ہے، تب ہم شہر سے دور ملاڈ کے پاس ایک فلیٹ میں رہتے تھے. ہماری شادی اسی فلیٹ میں ہوئی تھی. مييا بیوی اکیلے ہی اس فلیٹ میں رہتے تھے. اس فلیٹ میں ہم سے اوپر ایک خاندان رہتا تھا. اس خاندان میں ایک جوان كپل تھے نام تھا خواب اور ديپاكر. ان کوئی بچہ نہیں تھا. ساتھ میں ان کے سسر جی بھی رہتے تھے. ان کی عمر کوئی 60 سال کے آس پاس تھی ان کا نام کیلاش شرما تھا میں خواب سے بہت جلد کافی گھل مل گئی. اکثر وہ ہمارے گھر آتی یا میں اس کے گھر چلی جاتی تھی. میں اکثر گھر میں سکرٹ اور ٹی شرٹ میں رہتی تھی. میں سکرٹ کے نیچ چھوٹی سی ایک ككشي پہنتی تھی. مگر ٹی شرٹ کے نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی. اس سے میرے بڑے بڑے بوبس ہلکی حرکت سے بھی اچھل اچھل جاتے تھے. میرے نپلس ٹی شرٹ کے باہر ہی ساپھ ساپھ نظر آتے تھے.
خواب کے سسر کا نام میں جانتی تھی. انہیں بس شرما انکل کہتی تھی. میں نے محسوس کیا شرما انکل مجھ میں کچھ زیادہ ہی اٹےرےسٹ لیتے تھے. جب بھی میں ان کے سامنے ہوتی ان کی نظریں میرے بدن پر پھرتی رہتی تھی. مجھے ان پر بہت غصہ آتا تھا. میں ان کی بہو کی عمر کی تھی مگر پھر بھی وہ مجھ پر گندی نیت رکھتے تھے. لیکن ان کا هسمكھ اور لاپرواہ سوابھاو آہستہ آہستہ مجھ پر اثر کرنے لگا. دھیرے دھیرے میں ان کی نظروں سے واقف ہوتی گئی. اب ان کا میرے بدن کو گھورنا اچھا لگنے لگا. میں ان کی نظروں کو اپنی چوچیو پر یا اپنے سکرٹ کے نیچے سے جھاكتي ننگے ٹانگوں پر پا کر مسکرا دیتی تھی
خواب تھوڑی سست قسم کی تھی اس لئے کہیں سے کچھ بھی مگوانا ہو تو اکثر اپنے سسر جی کو ہی بھیجتی تھی. میرے گھر بھی اکثر اس کے سسر جی ہی آتے تھے. وہ ہمیشہ میرے سنگ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش میں رہتے تھے. ان کی نذرے ہمیشہ میری ٹی شرٹ کے گلے سے جھانکتے بوبس پر رہتی تھی. میں پهناوے کے معاملے میں تھوڑا بےفكر ہی رہتی تھی. اب جب خدا نے اتنا سیکسی جسم دیا ہے تو تھوڑا بہت اےكسپوذ کرنے میں کیا ہرز ہے. وہ مجھے اکثر چھنے کی بھی کوشش کرتے تھے لیکن میں انہیں زیادہ لفٹ نہیں دیتی تھی.
اب اصل واقعہ پر آیا جائے. اچانک خبر آئی کہ ممی کی طبیعت خراب ہے. میں اپنے مایکے اندؤر چلی آئی. ان دنو موبائل نہیں تھا اور ٹیلیفون بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتے تھے. کچھ دن رہ کر میں واپس ممبئی آ گی. میں نے روہن کو پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی تھی کیونکہ ہمارے گھر میں ٹیلیفون نہی تھا. میں شام کو اپنے فلیٹ میں پہنچی تو پایا کی دروازے پر تالا لگا ہوا ہے. وہیں دروازے کے باہر اسی طرح رکھ کر روہن کا انتظار کرنے لگی. روہن شام 8 بجے تک گھر آ جاتا تھا. لیکن جب 9 ہو گئے تو مجھے فکر ستانے لگی. فلیٹ میں زیادہ کسی سے جان پہچان نہیں تھی. میں نے خواب سے پوچھنے کا خیال کیا. میں نے اوپر جا کر خواب کے گھر کی كالبےل بجائی. اندر سے ٹی وی چلنے کی آواز آ رہی تھی. کچھ دیر بعد دروازہ کھلا. مینے دیکھا سامنے شرما جی کھڑے ہیں.
"ہیلو ... وہ خواب ہے کیا؟" میں نے پوچھا.
"خواب تو ديپاكر کے ساتھ ہفتے بھر کے لئے گوا گئی ہے گھومنے. ویسے تم کب آئی؟"
"جی ابھی کچھ دیر پہلے. گھر پر تالا لگا ہے روہن ...؟"
"روہن تو گجرات گیا ہے اپھيشيل کام سے کل تک آئے گا." انہوں نے مجھے مسکرا کر دےكھا- "تمہے بتایا نہی"
"نہی انکل ان سے میری کوئی بات ہی نہیں ہوئی. ویسے میری پلاننگ کچھ دنو بعد آنے کی تھی."
"تم اندر تو آو" انہوں نے کہا میں نے کشمکش سی اپنی جگہ پر کھڑی رہی.
"خواب نہیں ہے تو کیا ہوا میں تو ہوں. تم اندر تو آو." کہہ کر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچا. میں کمرے میں آ گئی. انہوں نے آگے بڑھ کر دروازے کو بند کر کے کنڈی لگا دی. میں نے جھجھکتے ہوئے ڈريگ روم میں قدم رکھا. جیسے ہی سینٹر ٹیبل پر نظر پڑی میں تھم گئی. سینٹر ٹیبل پر بیئر کی بٹلس رکھی ہوئی تھی. آس پاس سنكس بکھرے پڑے تھے. ایک سنگل سوفی پر كامدار انکل بیٹھے ہوئے تھے. ان کے ایک ہاتھ میں بیئر کا گلاس تھا. جس سے وہ ہلکی ہلکی چسكيا لے رہے تھے. میں اس ماحول کو دیکھ کر چونک گئی. شرما انکل نے میری جھجھک کو سمجھا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"ارے گھبرانے کی کیا بات ہے. آج اڈيا- پاکستان میچ چل رہا ہے نا. سو ہم دونو کو میچ کو ایںجاے کر رہے تھے." میں نے سامنے دیکھا ٹی وی پر انڈیا پاکستان کا میچ چل رہا تھا. میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا کیا کرنا مناسب ہوگا. یہاں ان کے درمیان بیٹھنا یا کسی هوٹےل میں جا کر ٹھہرنا. گھر کے دروازے پر اٹرلك تھا اس لئے توڈا بھی نہیں جا سکتا تھا. میں وہیں سوفی پر بیٹھ گئی. مینے سوچا میرے علاوہ دونوں آدمی بزرگ ہیں ان سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے. لیکن رات بھر رکنے کی بات جہاں آتی ہے تو ایک بار سوچنا ہی پڑتا ہے. میں انہی خیالات میں گمسم بیٹھی تھی لیکن انہوں نے گویا میرے من میں چل رہے اتھل پتھل کو بھاپ لیا تھا.
"کیا سوچ رہی ہو؟ کہیں اور رکنے سے اچھا ہے رات کو تم یہیں رک جاؤ. تم خواب اور ديپاكر کے بیڈ روم میں رک جانا میں اپنے کمرے میں سو جانگا. بھائی میں تمہیں کاٹ نہیں لوں گا. اب تو بوڑھا ہو گیا ہوں. هاهاها .. "
ان کے اس طرح بولنے سے ماحول تھوڑا ہلکا ہوا. میں نے بھی سوچا کہ میں بے وجہ ایک بزرگ آدمی پر شک کر رہی ہوں. میں ان کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنے لگی. پاکستان بیٹنگ کر رہی تھی. کھیل کافی کانٹے کا تھا اس لئے مہم جوئی مکمل تھا. مینے دیکھا دونو درمیان درمیان میں كنكھيو سے سکرٹ سے باہر جھاكتي میری گوری ٹانگوں کو اور ٹی شرٹ سے ابھرے ہوئے میرے بوبس پر نظر ڈال رہے تھے. پہلے پہلے مجھے کچھ شرم آئی لیکن پھر مینے اس طرف غور کرنا چھوڑ دیا. میں سامنے ٹی وی پر چل رہے کھیل کا مزا لے رہی تھی. جیسے ہی کوئی آؤٹ ہوتا ہم سب خوشی سے اچھل پڑتے اور ہر شاٹ پر گلیاں دینے لگتے. یہ سب انڈیا پاکستان میچ کا ایک كامن سین رہتا ہے. ہر بال کے ساتھ لگتا ہے سارے ہندوستانی کھیل رہے ہوں.
کچھ دیر بعد شرما اںکل نے پوچھا، "رتكا تم کچھ لوگي؟ بیئر یا جن ...؟"
میں نے نا میں سر ہلایا لیکن بار بار رکویسٹ کرنے پر میں نے کہا، "بیئر چل جائے گی .."
انہوں نے ایک کی بوتل اوپن کر کے میرے لئے بھی ایک گلاس بھرا پھر ہم "چیرس" بول کر اپنے اپنے گلاس سے شکتی کرنے لگے.
شرما اںکل نے دیوار پر لگی گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا "اب کچھ کھانے پینے کا انتظام کیا جائے" -نهونے میرے چہرے پر نگاہ گڑھاتے ہوئے کہا "تم نے شام کو کچھ کھایا یا نہیں؟"
میں ان کے اس سوال پر هڑبڑا گيي- "ہاں میں نے کھا لیا تھا."
"تم جب جھوٹ بولتا ہو تو بہت اچھی لگتی ہو. پاس کے هوٹےل سے تین کھانے کا آرڈر دے دے اور بول کہ جلدی بھیج دے گا" كدر اںکل نے فون کر کے. کھانا منگوا لیا.
ایک گلاس کے بعد دوسرا گلاس بھرتے گئے اور میں انہیں شکتی کر کر کے ختم کرتی گئی. آہستہ آہستہ بیئر کا نشہ نظر آنے لگا. میں بھی ان کے ساتھ ہی چیخ چیخ رہی تھی، تالیاں بجا رہی تھی.
کچھ دیر بعد کھانا آ گیا. ہم نے اٹھ کر کھانا کھایا پھر واپس آ کر سوپھے پر بیٹھ گئے. شرما انکل اور كامدار انکل اب بڑے والے سوفی پر بیٹھے. وہ سوفی ٹی وی کے ٹھیک سامنے رکھا ہوا تھا. میں دوسرے سوفی پر بیٹھنے لگی تو شرما اںکل نے مجھے روک دیا: ''
"ارے وہاں کیوں بیٹھ رہی ہو. یہیں پر آجا یہاں سے اچھا نظر آئے گا. دونوں سوفی کے دونو کناروں پر سرک کر میرے لئے درمیان میں جگہ بنا دئے. میں دونو کے درمیان آ کر بیٹھ گئی. پھر ہم میچ دیکھنے لگے. وو دونو واپس بیئر لینے لگے. میں نے صرف ان کا ساتھ دے رہی تھی. باتوں باتوں میں آج میں نے زیادہ لے لیا تھا اس لئے اب میں کنٹرول کر رہی تھی جس سے کہیں بہک نہ جاؤ. آپ سب تو جانتے ہی ہوں گے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ ہو تو کیسا ماحول رہتا ہے. شارجہ کے میدان میں میچ ہو رہا تھا. انڈین کیپٹن تھا اذهرددين.
"آج اڈينس جیتنا ہی نہیں چاہتے ہیں." شرما جی نے کہا
"یہ ایسے کھیل رہے ہیں جیسے پہلے سے سٹے بازی کر رکھی ہو." كدر اںکل نے کہا.
"آپ لوگ اس طرح کیوں بول رہے ہیں؟ دیکھنا انڈیا جیتے گی." مینے کہا
"ہو ہی نہیں سکتا. شرط لگا لو انڈیا ہار کر رہے گی" شرما اںکل نے کہا.
تبھی ایک اور چھکا لگا. "دیکھا ... دیکھا ...." شرما اںکل نے میری پیٹھ پر ایک ہلکے سے صلواتیں جمایا "میری بات مانو یہ سب ملے ہوئے ہیں."
کھیل آگے بڑھنے لگا. تبھی ایک وکٹ گرا تو ہم تینو اچھل پڑے. میں خوشی سے شرما انکل کی جاںگھ پر ایک زور کی تھپكي دے کر بولی "دیکھا انکل؟ آج ان کو کوئی نہیں بچا سکتا. ان سے یہ اسکور بن ہی نہیں سکتا." میں اس کے بعد واپس کھیل دیکھنے میں بزی ہو گئی. میں بھول گئی تھی کہ میرا ہاتھ اب بھی شرما انکل کی رانوں پر ہی پڑا ہوا ہے. شرما انکل کی نگاہیں بار بار میری ہتھیلی پر پڑ رہی تھی. انہوں نے سوچا شاید میں جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہوں. انہوں نے بھی بات کرتے کرتے اپنا ایک ہاتھ میرا سکرٹ جہاں ختم ہو رہا تھا وہاں پر میری ننگی ٹانگ پر رکھ دیا. مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ ان کی رانوں پر سے ہٹا دیا. ان کا ہاتھ میری ٹانگوں پر رکھا ہوا تھا. كدار انکل نے میرے کندھے پر اپنے بازو رکھ دی. مجھے بھی کچھ کچھ مزا آنے لگا.
اب لاسٹ تین اوور باقی تھے. کھیل کافی ٹکر کا ہو گیا تھا. ایک طرف جاوید میانداد کھیل رہا تھا. لیکن اسے بھی جیسے انڈین بولرس نے باندھ کر رکھ دیا. کھیل کے ہر بال کے ساتھ ہم اچھل پڑتے. یا تو سکھ مناتے یا بے بسی میں سانس چھوڑتے. اچھل کود میں کئی بار ان کی كوهنيا میرے بوبس سے ٹکرائی. پہلے تو میں نے سوچا شاید غلطی سے ان کی کہنی میرے بوبس کو چھو گئی ہوگی لیکن جب یہ غلطی بار بار ہونے لگی تو ان کے غلط ارادے کی بھنک لگی.
آخری اوور آ گیا اظہر نے بال ذی شرما کو پكڑاي.
"اس کو لاسٹ اوور کافی سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا سامنے جاوید میانداد کھیل رہا ہے."
"ارے انکل دیکھنا یہ جاوید میانداد کی حالت کیسے خراب کرتا ہے." مینے کہا
"نہی جیت سکتی انڈیا کی ٹیم نہیں جیت سکتی لکھ کے لیلو مجھ آج پاکستان کے جیتنے پر میں شرط لگا سکتا ہوں." شرما اںکل نے کہا.
"اور میں بھی شرط لگا سکتا ہوں کی انڈیا ہی جیتے گی" مینے کہا. آخری دو بال بچنے تھے کھیل مکمل طور پر انڈیا کے پھےور میں چلا گیا تھا.
"جاوید میانداد کچھ بھی کر سکتا ہے. کچھ بھی. اسے آؤٹ نہیں کر سکے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے." شرما انکل نے پھر جوش میں کہا.
"اب تو جاوید میانداد تو کیا اس کے فرشتے بھی آ جائیں نا تو بھی ان کو ہارنے سے نہیں بچا سکتے."
"چلو شرط ہو جائے." شرما اںکل نے کہا.
"ہاں ہاں ہو جائے .." كدر اںکل نے بھی ان کا ساتھ دیا. میں نے پیچھے ہٹنے کو اپنی ہار مانی اور ویسے بھی انڈیا کی جیت تو پکی تھی. لاسٹ بال بچا تھا اور جیتنے کے لئے پانچ رنز چاہئے تھے. اگر ایک چوکا بھی لگتا تو دونوں ٹیم ٹائی پر ہوتے. جیت تو صرف ایک سکس ہی دلا سکتی تھی جو کہ اتنے ٹےنس مومےٹ میں ناممکن تھا.
"بولو اب بھگوگے تو نہیں. آخری بال اور پانچ رنز. چار رن بھی ہو گئے تو دونوں برابر ہی رہیں گے. جیتنے کے لئے تو صرف چھکا چاہئے." میں نے فخر سے گردن اکڑا کر شرما جی کی طرف دیکھا. شرما اںکل نے اپنے کندھے اچكاي کہا کچھ نہیں. ان کو بھی لگ گیا تھا کہ آج انڈیا ہی جیتے گی. پھيلڈرس سارے باڈري پر لگا دئے گئے تھے. میں نے ان سے پوچھا
"سوچ لو .... اب شرط لگاوگے کیا. 99٪ تو انڈیا جیت ہی چکی ہے."
"شرط تو ہم کریں گے ہی. دیکھنا جاوید میانداد بیٹنگ کر رہا ہے. وہ پوری جان لگا دے گا." شرما اںکل نے اپنی ہاتھ سے پھسلتي ہوئی هےكڑي کو واپس بٹورتے ہوئے کہا.
"ٹھیک ہے ہو جائے شرط." کہ کر میں نے اپنے ایک ہاتھ شرما انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ كدر انکل کے ہاتھ میں دیا.
"اگر انڈیا جیتی تو ..................؟" شرما اںکل نے بات میرے لئے ادھوری چھوڑ دی.
"تو آپ دونوں مختلف مجھے ٹریٹ دیں گے. ساتھ میں ہم لوگوں کی پھیملی بھی رہے گی. مكڈونلڈس میں شامل. منظور؟" میں نے ان سے کہا. دونو نے تپاک سے حامی بھر دی.
"اور اگر پاکستان جیت گئی تو ... ...؟" - كدر انکل نے بھی شرط میں شامل ہوتے ہوئے کہا.
"تو رتكا وہی کرے گی جو ہم دونو کہیں گے. منظور ہے؟" شرما انکل نے کہا
"کیا کرنا پڑے گا؟" میں نے ہنستے ہوئے پوچھا. میں سوچ بھی نہیں پا رہی تھی کہ میں کس طرح ان دونوں بوڈھو کے چنگل میں پھستي جا رہی ہوں.
"کچھ بھی جو ہمیں پسند ہو گا." كدر نے کہا.
"ارے كدر چھوڑ شرط-ورت یہ لگا نہیں سکتی." شرما اںکل نے کہا.
"ٹھیک ہے ہو جائے شرط." کہ کر میں نے اپنا ایک ہاتھ شرما انکل کے ہاتھ میں دیا اور ایک ہاتھ كدر انکل کے ہاتھ میں دیا. دونوں نے اپنے ہاتھ میں میرے ہاتھوں کو پکڑ لیا. دونوں میرے بدن سے سٹ گئے. میں دونو کے درمیان سڈوچ بنی ہوئی تھی. ایسے ماحول میں چیتن شرما نے دوڑنا شروع کیا. کمرے میں ماحول گرم ہو گیا تھا. کچھ تو میچ کے مہم جوئی سے اور کچھ ہمارے بدن کے ایک دوسرے سے سٹنے سے. چیتن شرما دوڑتا ہوا آیا اور اس پتہ نہیں کیوں ایک پھلٹوس گیند جاوید میانداد کو پھینکی. ہماری سانسیں تھم گئی تھی. جاوید میانداد نے آخری بال کے پیچھے آتے ہوئے اپنے بیٹ کو لفٹ کیا اور بال تیزی سے نیچے آتی ہوئی بیٹ سے ٹکرائی. سب ایسا لگ رہا تھا جیسے سلو موشن میں چل رہا ہو. بال بیٹ سے لگ کر آسمان میں اچھلي اور لاکھوں کروڑوں ناظرین صرف سانس روکے دیکھتے ہی رہ گئے. بال بغیر ڈراپ کے باڈري کے باہر جا کر گری. اپاير نے چھکے کا اشارہ کیا اور پاکستان جیت گئی. مجھے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ سب کیا چل رہا ہے. میں نے صرف منہ پھاڈے ٹی وی کی طرف دیکھ رہی تھی. یقین تو میرے ساتھ بیٹھے دونوں بزرگوں کو بھی نہیں ہو رہا تھا کہ ایسے پوزشن سے انڈیا ہار بھی سکتی ہے. کچھ دیر تک اسی طرح رہنے کے بعد دونوں چللا اٹھے،
"هررراه .... ہم جیت گئے." میں نے مایوسی کے ساتھ دونوں کی طرف دیکھا.
"ہم جیت گئے." میں ان کی طرف دیکھ کر ایک اداس سی مسکراہٹ دی "اب تم ہماری شرط پوری کرو." شرما جی نے کہا.
"ٹھیک ہے بولو کیا کرنا ہے." میں نے ان سے کہا.
"سوچ لو پھر سے بعد میں اپنے وعدے سے مکر مت جانا." شرما اںکل نے کہا.
"نہی میں نہیں مكروگي اپنے وعدے سے. بولو مجھے کیا کرنا پڑے گا." شرما جی نے مسکراتے ہوئے كدر انکل کی طرف دیکھا. دونو کی آنکھیں ملی اور سوادو کا کچھ تبادلہ ہوا.
"تو بول كدر ....... اسے کیا کرنے کو کہا جائے." شرما اںکل نے كدر انکل سے کہا.
"نہی تو نے شرط عائد ہے شرما تو ہی اس کے ثواب کا اعلان کر."
Comments
Post a Comment